یہ آخری تجربہ بھی کرلیں
‘انور غازی
جنوری ۱۷۔۔۔۲۰۲۲
روزنامہ جنگ
دنیا میں سائنسی تجربے کرنے اور نت نئی سائنسی ایجادات کے لحاظ سے پاکستان کا شمار دور دور تک نہیں ہوتا۔ البتہ ااس مملکتِ خداداد کو دنیا میں سب سے زیادہ ’’ سیاسی تجربے ‘‘ کرنے کا اعزاز ضرور حاصل ہے۔ ایک معروف سیاسی عمل یعنی جمہوریت اور 1946کے شفاف انتخابات کے ذریعے معرضِ وجود میں آنے والے اس ملک میں جتنے سیاسی تجربے کئے گئے ان کا واحد مقصد عوام کو جاہل قرار دے کر ان کے منتخب نمائندوں کا راستہ روکنا اور اس جمہوریت کا گلا گھوٹنا تھا جس کے ذریعے عوام نے پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یوں پاکستان کو غیر جمہوری نظام ہائے حکومت کی سب سے بڑی لیبارٹری یا تجربہ گاہ بنا دیا گیا۔ لیکن اس لیبارٹری میں کئے گئے تمام تجربات بُری طرح ناکام ہو گئے ۔ یہاں تک کہ ملک کا بڑا حِصّہ اس سے الگ ہوگیا۔ نہ صرف الگ ہوا بلکہ ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نکل گیا۔ جبکہ اس کے برعکس ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی ہم خطّے کے تمام ممالک سے پیچھے رہ گئے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ بنگلہ دیش کی ترقی نے ہمارے صوبوں میں موجود بے چینی اور علیحدگی پسندی کو بھی تقویت دی کیونکہ بنگلہ دیش نے جو ترقی کی، ہم سے علیحدہ ہونے کے بعد کی گویا انکی ترقی کے راستے میں ’’ دیوار ‘‘ ہم تھے۔ زیادہ امکان یہی تھا کہ 71کے سانحے کے بعد یہ تجربات بند کر دئیے جائیں گے اور پاکستان کو اسی ’’ فطری قانون‘‘ کے تحت چلنے دیا جائے گا۔ جس کے تحت وہ قائم ہوا تھا اور جسکے تحت دنیا کے تمام ممالک نے قابلِ رشک ترقی کی ۔ لیکن آج 75سال گزرنے کے بعد بھی پاکستان کا کوئی منتخب وزیرِ اعظم سوائے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے اپنی آئینی مدّت پوری نہ کرسکا ۔ دیکھا جائے تو بھٹو شہید بھی اسی زمرے میں آتے ہیں کیونکہ 73کے آئین کی رو سے انہوں نے 1978میں الیکشن کروانے کی بجائے ایک سال پہلے یعنی مارچ 1977میں ہی عام انتخابات کروادیے تھے۔ جمہوریت کے استحکام کیلئے اٹھائے گئے اس قدم سے خوفزدہ ہوکر غیر جمہوری قوتوں نے وہ سارا نظام ہی اکھاڑ پھینکا اور ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ ء دار پر لٹکا کر نشانِ عبرت بنا دیا گیا۔ اس کے باوجود یہ پہلا اور ابھی تک کا آخری دورِ جمہوریت ہے جس میں پاکستان نے حقیقی طور پر سیاسی ، ذہنی ، معاشی اور معاشرتی طور پر ترقی کی۔ پاکستان کو متفقہ جمہوری آئین ملا، ایٹمی پروگرام کا آغاز ہوا، اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی ، پاکستان اسٹیل مل لگا ئی گئی، پاکستانیوں کو بیرونِ ملک روزگار ملا۔ اور پاکستان ایک ابھرتا ہوا روشن خیال جمہوری ملک بننے لگا۔ پاکستان جب کمزور ترین ملک تھا تب بھی جمہوری دور میں 1956میں اسے گوادر ملا اور اس کی حدود میں اضافہ ہوا لیکن اسے مشرقی پاکستان ، سیاچین اور کارگل سے اس وقت محروم ہونا پڑا جب اس پر آمر حکمراںتھے۔ جبکہ تمام جنگیں بھی آمروں کے ادوار میں ہوئیں جنہوں نے پاکستان کو کمزور کردیا۔ محلّاتی سازشوں کے ذریعے اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے پہلےکمانڈر انچیف جنرل ایوب خان نے جمہوریت کے نام پر پہلا غیر جمہوری نظام دیا جس کا نام بنیادی جمہوریتوں کا نظام یعنی بی ڈی سسٹم تھا۔ اس نظام کے ذریعے عوام کو مغربی اور مشرقی پاکستان سے اسّی اسّی ہزار نمائندے منتخب کرناتھے اور پھر ان نمائندوںکو صدرِ مملکت کا انتخاب کرنا تھا۔ اس کا جواز یہ گھڑا گیا کہ کچھ سال پہلے اپنے براہِ راست ووٹ سے پاکستان کے قیام کا فیصلہ کرنے والے عوام اپنے نمائندوں کو چننے کے اہل نہ تھے۔ دکھ تو یہ ہے کہ اس نظام کے تحت بھی محترمہ فاطمہ جناح الیکشن جیت گئیں لیکن انہیں ہرا دیا گیا۔ یہ اقدام ملک کے دولخت ہونے کا سبب بنا۔ ضیاالحق نے متناسب نمائندگی خلافت اور اسلامی نظام پر ایک عرصے تک قوم کو کنفیوژن میں مبتلا کرنے کے بعد مجلسِ شور یٰ اور غیر جماعتی نظام کو مسلّط کردیا ۔ جس نے پوری قوم کو صوبائی لسانی اور ذات برادری کی سطح تک تقسیم کر ڈالا ۔ پر ویز مشرف نے ایک نیا نظام روشناس کرایا جسے ڈی جی سسٹم یعنی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ یا ضلعی حکومت کا نام دیا۔ بدقسمتی سے یہ تمام نظام اپنے خالقوں کے ساتھ ہی رخصت ہوگئے۔ آج کل ایک نئے ہائبرڈ یا طفیلی نظام کا تجربہ کیا جا رہا ہے۔ جو پچھلے تمام نظاموں سے زیادہ خوفناک ثابت ہو رہا ہے۔ ان تمام نظاموں کی ناکامی اور بقیہ پاکستان کوناکام ریاست بننے سے روکنے کے لئےصرف آخری نظام باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے معروف پارلیمانی جمہوریت کا نظام ، جو ہر طرح کے بیرونی دبائو اور مداخلت سے آزاد ہو۔ پاکستانی عوام اور تاریخ ہاتھ جوڑ کر یہ التجا کررہی ہے کہ اپنے ذاتی ، گروہی اور ادارہ جاتی مفادات سے بالا تر ہو کر اس آخری نظام کو بھی آخری تجربہ سمجھ کر رائج کر دیا جائے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے کیونکہ پاکستان کو صرف حقیقی آزاد اور شفاف جمہوری نظام ہی بچا سکتا ہے۔