Altaf Qureshi 25

حکمرانوں کی اداکاریاں

الطاف حسن قریشی
فروری ۲۵۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ

قائدِملت نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سول اور ملٹری بیوروکریسی اقتدار پر قابض ہو گئی۔ ملک غلام محمد اور اسکندر مرزا تو طبعاً شاطر اور اِقتدار کے بھوکے تھے، البتہ جنرل ایوب خان بعض خوبیوں کے مالک بھی سمجھے جاتے تھے۔ اُن کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کے حصّے میں آنے والی منتشر اور اَسلحے سے محروم فوج کی جدید خطوط پر شیرازہ بندی اور اَمریکہ سے تعلقات استوار کر کے فوجی امداد کا حصول تھا۔ وہ چند سال علی گڑھ یونیورسٹی میں زیرِتعلیم رہے اور وَہیں سے اُنہیں برٹش آرمی میں سلیکٹ کر کے سینڈہرسٹ بھیج دیا گیا۔ وہ اِسلام کو عصری تقاضوں میں ڈھالنے اور مستقل بنیادوں پر سیاسی استقلال میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب 1950 کی دہائی میں پاکستان آئین سازی کے شدید بحران سے دوچار تھا، وہ لندن کے ایک ہوٹل میں بند ہو کر پاکستان کے گمبھیر مسائل اور اُن کے پائیدار حل پر یک سوئی سے غوروخوض کر رَہے تھے۔ اُنہوں نے فوجی انداز میں اپنے خیالات قلم بند کیے جن کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستان کا حقیقی ہدف ایک مضبوط، ٹھوس اور متحد قوم کی تشکیل ہونا چاہیے جس کے لیے عوام کے مزاج سے ہم آہنگ ایک آئین درکار ہو گا۔ اِسی طرح ملک کے مختلف حصّوں میں بسنے والے عوام کے ثقافتی تنوع کو تسلیم کرنا اور اُنہیں عملی طور پر یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ وہ اِقتدار میں برابر کے شریک ہیں۔

اُس دستاویز میں یہ تجزیہ بھی شامل تھا کہ ہر قسم کی پابندی سے آزاد جمہوریت پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ کمیونسٹ ایک لاغر جمہوری حکومت سےفائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔ اُس خاکے میں ایک ایسی مضبوط حکومت کا نقشہ پیش کیا گیا تھا جس میں کلی اختیارات فردِ واحد کے ہاتھ میں ہوں اور عوامی نمائندوں کا چناؤ انتخابی ادارے (Electoral College) کے ذریعے عمل میں لایا جائے۔ اُن کے خیالات پر لبرل دانش وروں اوراِقتدار پرست مذہبی پیشواؤں کی سوچ کا پرتو صاف نظر آ رہا تھا۔ ملک غلام محمد، میجرجنرل اسکندر مرزا اَور اَیوب خان اقتدار کی ایک طاقت ور مثلث کی حیثیت اختیار کر گئے تھے جو اُن مثبت قوتوں کے خلاف صف آرا تھے جن کی اخلاقی، علمی اور فکری قیادت سید ابوالاعلیٰ مودودی کمال میانہ روی اور بالغ نظری سے کر رہے تھے۔

ملک غلام محمد، جنہوں نے میجرجنرل اسکندر مرزا اَور کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب کی درپردہ حمایت سے دستورساز اسمبلی توڑ ڈالی تھی اور فیڈرل کورٹ میں نقب لگائی تھی، اُن کی اداکاری کا ایک حیرت انگیز واقعہ ایوب خان نے اپنی خودنوشت میں بیان کیا ہے۔ اُس واقعے کا پس منظر یہ تھا کہ دستورساز اسمبلی نے 20 ستمبر 1954 کے اجلاس میں آئین کی منظوری کے علاوہ دو اِنتہائی اہم بل بھی پاس کیے تھے جن کے ذریعے گورنرجنرل کے صوابدیدی اختیارات محدود جبکہ اعلیٰ عدالتوں کو رِٹ جاری کرنے کے اختیارات دیے گئے تھے۔ اِس ’’فتح‘‘ پر وزیرِاعظم محمد علی بوگرہ نے غیرمعمولی مسرت کا اظہار کیا تھا اور دَستور کا حتمی ڈرافٹ تیار کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی کا اجلاس 25 دسمبر تک ملتوی کر دیا تھا۔ اُس کے بعد وہ جنرل ایوب خاں کے ہمراہ وَاشنگٹن روانہ ہو گئے، لیکن اُنہیں فوری طور پر وطن واپسی کا حکم موصول ہوا۔ وہ بڑی افراتفری میں کراچی پہنچے کہ اُنہیں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ جنرل ایوب خان نے اُنہیں حوصلہ دیا اور وُہ خود چوہدری محمد علی اور اسکندر مرزا کے ہمراہ محمد علی بوگرہ کی صفائی پیش کرنے گورنرجنرل غلام محمد کے پاس گئے جو اَپنی خواب گاہ میں ایک تختے پر چاروں شانے چت لیٹے غصّے سے آگ بگولہ ہو رہے تھے۔ اُن کے منہ سے گالیوں کے باعث جھاگ نکل رہی تھی جو کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھیں۔ چوہدری محمد علی نے کچھ کہنے کی جرأت کی۔ جواب میں گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی۔ اُس کے بعد اسکندر مرزا نے لب کشائی کی، مگر وہ بھی گالیوں کی زد میں آ گئے۔ وہ تینوں یہ کہنے آئے تھے کہ معزول شدہ وَزیرِاعظم کو ایک موقع اور دِیا جائے۔ جواب میں اُن کی زبان سے ’دف دف’ کے شعلے نکلتے رہے، چنانچہ اُن چاروں نے پیچھے ہٹ جانے ہی میں اپنی عافیت جانی۔

وہ خواب گاہ سے اِس طرح نکلے کہ آگے آگے اسکندر مرزا اَور اُن کے پیچھے چوہدری محمد علی اور بوگرہ اَور سب سے پیچھے ایوب خان تھے۔ ابھی جنرل ایوب اپنا آخری قدم کمرے سے باہر رکھنے ہی والے تھے کہ گورنرجنرل کی خدمت پر مامور نرس نے اُن کا کوٹ کھینچا۔ وہ پلٹے تو دیکھا کہ سامنے ایک بالکل ہی مختلف شخص بیٹھا ہے۔ وہی بیمار اَور بوڑھے گورنرجنرل جو لمحہ بھر پہلے طیش میں تھے، اب اُن کا چہرہ کِھل اُٹھا تھا۔ اُن کی طرف سے مسہری پر بیٹھ جانے کا اشارہ ہوا۔ اُس کے بعد اُنہوں نے تکیے کے نیچے سے ایک دستاویز نکالی جس پر کچھ اِس قسم کی عبارت لکھی تھی کہ مَیں غلام محمد فلاں فلاں وجوہ سے فلاں فلاں اختیارات جنرل ایوب خان کو سونپتا ہوں اور اُنہیں حکم دیتا ہوں کہ وہ تین مہینوں کے اندر اَندر پاکستان کا آئین تیار کریں۔ ایوب خان نے بھاری پتھر چوم کر وہیں رکھ دیا اور یوں غلام محمد کے لیے بوگرہ کو واپس لینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں رہا تھا۔ ایوب خان نے دل ہی دل میں کہا کہ آپ بھی ’’بڑے حضرت‘‘ ہیں۔

اُسی شام بحال شدہ وَزیرِاعظم بوگرہ نے بھی کمال درجے کی اداکاری کی۔ حلف برداری کی تقریب کے چند گھنٹوں بعد ریڈیو پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین ساز اسمبلی کے اقدامات پر پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے۔ حال ہی میں عوام کی اکثریت نے اُس کی نمائندہ حیثیت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے، چنانچہ اُس کے فیصلوں کی اب کوئی قانونی حیثیت نہیں رہی۔

لوگ حیران تھے کہ وہی بوگرہ جو گورنرجنرل کے اختیارات کم کرنے پر اِترا رَہے تھے، اب وہ کیسی بھیگی بلی بنے گورنرجنرل کے پاؤں پڑ گئے ہیں۔ اداکاری کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جس سےحیران کن تضادات اور ہوش رُبا واقعات جنم لے رہے ہیں، لہٰذا جماعتِ اسلامی کی مجلسِ شوریٰ نے پیدا ہونے والے تضادات کے خلاف رائےعامہ ہموار کرنے کی جدوجہد تیز کر دی ہے۔ (جاری ہے)

 

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.