ناقابلِ فراموش واقعات
الطاف حسن قریشی
فروری 11۔۔۔2022
بشکریہ روزنامہ جنگ
مسلم لیگ نے 46-1945 کے انتخابات میں 95 فی صد سے زائد مسلم نشستیں جیت لیں، تو جاگیردار، الحاد کی طرف مائل سیکولر عناصر، مغربی تہذیب کے دلدادہ اَور علاقائی قوم پرست اُس میں جوق در جوق شامل ہوتے گئے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے مسلم لیگ کی جن تنظیمی اور اَخلاقی کمزوریوں کی جذبۂ خیرخواہی کے تحت نشان دہی کی تھی، وہ قیامِ پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی میں نظامِ حکومت پر منفی اثرات ڈالنے لگی تھیں۔ پہلا بڑا حکومتی اِنتشار پنجاب میں رونما ہوا۔ وزیرِاعلیٰ افتخار حسین ممدوٹ کے مدِمقابل میاں ممتاز دولتانہ اور سردار شوکت حیات آن کھڑے ہوئے۔ اُن کے درمیان تنازع طے کرانے کے لیے قائدِاعظم لاہور تشریف لائے، لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باجود ناکام رہے۔ کچھ ایسا ہی منظرنامہ مشرقی بنگال میں تشکیل پا رہا تھا جہاں وزیرِاعلیٰ خواجہ ناظم الدین کے خلاف مولوی فضل الحق اور محمد علی بوگرہ طلبہ کو احتجاج پر اُکسا رَہے تھے۔ صوبہ سرحد میں خان عبدالقیوم خان کو پیر مانکی شریف کی طرف سے انتہائی سنگین چیلنج کا سامنا تھا جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں بھرپور حصّہ لیا تھا۔ علاوہ اَزیں سرخ پوش آزاد پختونستان کا تنازع کھڑا کیے ہوئے تھے۔ سندھ میں ایوب کھوڑو بھی مشکلات اور اَپنی انا میں گِھرے رہے۔
اِن حوصلہ شکن حالات اور صحت کی خرابی کے باجود اسٹیٹ بینک کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے حضرت قائدِاعظم زیارت سے کراچی آئے۔ اُنہوں نے اپنے خطاب میں اِس اُمید کی شمع روشن کی کہ اسٹیٹ بینک اسلامی اصولوں کے مطابق معیشت کے فروغ میں کلیدی کردار اَدا کرے گا اور سرمایہ دارانہ نظام سے نجات دلائے گا جس کی وجہ سے پوری انسانیت شدید عذاب میں مبتلا ہے۔ اِس سے قبل بانیٔ پاکستان اسلام کے آفاقی اصولوں اور زریں تعلیمات کا اظہار 14؍اگست 1947 کی شب منعقد ہونے والی تقریب میں وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے سامنے بڑی دانش مندی سے کر چکے تھے۔ اُنہوں نے آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے فرمایا تھا کہ’’ اسلام نے ہمیں صدیوں پہلے حریتِ فکر، جمہوریت، عالمی رواداری اور مساوات کا درس دیا ہے جو آج بھی اپنے اندر اَیک عظیم تمدنی قوت رکھتا ہے۔‘‘ اُن کی وفات کے بعد کچھ ایسے افراد بھی اعلیٰ عہدوں تک پہنچ گئے جو اَللّٰہ کے وجود ہی کے منکر تھے، ہمارے نابغہ روزگار جناب ڈاکٹر عبدالقادر کے فرزندِ ارجمند منظور قادر بھی اُن میں شامل تھے۔ اُنہوں نے صدر اَیوب خان کا دستور بنایا تھا اور مختصر وقت کے لیے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہے۔ حُسنِ اتفاق سے اُنہیں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی ’تفہیم القرآن‘ پڑھنے کا موقع ملا اَور وُہ مرنے سے پہلے ربِ کائنات پر ایمان لے آئے تھے۔
اِسی حوالے سے الطاف گوہر نے اپنے دوسرے دوست چیف جسٹس محمد منیر کا عجب واقعہ ’گوہر گزشت‘ میں رقم کیا ہے ۔ چیف جسٹس صاحب جنہوں نے ’نظریۂ ضرورت‘ کی ضربِ کاری سے عدلیہ کو غلط پٹڑی پر ڈال دیا تھا، اُن کا یہ ’’کارنامہ‘‘ بھی تاریخ میں محفوظ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد صدر جنرل ایوب خان نے اُنہیں اپنا وزیرِ قانون بنا دیا۔ اُنہی دنوں بنیادی جمہوریتوں کے اسّی ہزار اَرکان نے قومی اسمبلی کے ارکان منتخب کیے تھے اور تمام تر کوششوں اور بندشوں کے باوجود مشرقی پاکستان سے ایسے جی دار اَشخاص بھی منتخب ہو کر آ گئے تھے جو حکومت کے خلاف ایک اودھم مچائے رکھتے تھے۔ اُن کا مطالبہ تھا کہ مشرقی پاکستان کو ہر شعبے میں مغربی پاکستان کے برابر ملازمتیں اور وَسائل فراہم کیے جائیں۔ صدر اَیوب اور وَزیرِ قانون اِس ناقابلِ برداشت صورتِ حال سے چھٹکارا پانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے اور طے پایا کہ وزیرِ قانون مشرقی پاکستان کے سب سے زیادہ شوریدہ سر لیڈر سے ملاقات کر کے یہ کہیں گے کہ آئے روز کی جھک جھک سے بہتر ہے کہ ہم پُرامن طریقے سے جدا ہو جائیں۔ چیف جسٹس محمد منیر نے اپنی کتاب From Jinnah to Zia (جناح سے ضیاء تک) میں مشرقی پاکستان کے لیڈر کایہ جواب نقل کیا ہے کہ’ ’ہم تو اَکثریت میں ہیں، ہم کیوں الگ ہوں، تم ہی ہماری جان چھوڑ دو۔‘‘
جسٹس محمد منیر سخت بیمار پڑے، تو الطاف گوہر اُن کی عیادت کے لیے گئے۔ وہ بولے، تم تو جانتے ہو کہ مَیں خدا کے وجود کا کبھی قائل نہیں رہا اَور اَب یہ سوچ کر خوف آ رہا ہے کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک ہو گا۔ مَیں نے کہا توہینِ عدالت کا ملزم جب اپنے آپ کو عدالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے، تو اُسے معافی مل جاتی ہے۔ آپ بھی اپنے آپ کو اَللّٰہ تعالیٰ (اُس کی شان) کے حوالے کر دینا۔ اُمید ہے آپ معاف کر دیے جائیں گے۔ میری باتوں سے اُن کی کچھ ڈھارس بندھی تھی۔
اِس طبقے سے ہٹ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں اسلام کے شیدائی بڑی تعداد میں تھے۔ مولوی تمیزالدین خان، مولانا حسرت موہانی، خواجہ ناظم الدین، جناب عبدالرّب نشتر، ڈاکٹر عمرحیات ملک، مولانا شبیر احمد عثمانی، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر محمود حسین، مولانا ظفر احمد انصاری، نواب بہادر یار جنگ، نواب وقار الملک، مولانا راغب حسن، قاضی محمد عیسیٰ، مولانا اکرم خان، مولانا اطہر علی، پروفیسر ڈاکٹر سجاد حسین، مولانا سبحان آزاد، سردار جعفر خان جمالی، پیر مانکی شریف، مولانا غلام مرشد، مولانا محمد بخش مسلم، پیر جماعت علی شاہ، مولانا عبدالستار خان نیازی، مفتی محمد شفیع، چودھری محمد علی، علامہ علاؤ الدین صدیقی، میاں عبدالباری، افتخار حسین ممدوٹ اور پیر الٰہی بخش وہ دَرخشندہ ستارے تھے جنہوں نے مسلم لیگ میں احیائے اسلام کا جذبہ فروزاں رکھنے کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی۔ اِن کے علاوہ مولانا شاہ احمد نورانی کے والد ماجد مولانا عبدالعلیم صدیقی مسلم لیگ میں بہت متحرک تھے۔ اُن کے بھائی نذیر احمد نے ممبئی میں قائدِاعظم کا نکاح پڑھایا تھا۔ اِسی طرح سندھ کے معروف سیاست دان مولانا جان محمد عباسی کے والدِ بزرگوار مولانا غلام رسول عباسی نقشبندی اُن سرگرم افراد میں شامل تھے جنہوں نے 1937 کے انتخابات میں جناب ایوب کھوڑو کی انتخابی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا تھا جن کی قیادت میں سندھ کو بمبئی سے علیحدگی ملی تھی۔ شومئی قسمت سے طالع آزما باکردار شخصیتوں کو پیچھے دھکیل کر اختیارات کے ایوانوں میں نقب لگاتے رہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی اُن کی گرفت بھی کرتے اور اِصلاح پر بھی توجہ دیتے رہے، کیونکہ اصلاحِ معاشرہ کی جماعتِ اسلامی کے نزدیک بنیادی اہمیت ہے۔ (جاری ہے)