وزیراعظم کا دورہ ٔ ماسکو
عدنان عادل
فروری ۲۳۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیو
وزیراعظم عمران خان تئیس فروری کو دو روزہ سرکاری دورہ پر روس کے دارالحکومت ماسکو جارہے ہیں۔ انہیں اس دورہ کی دعوت روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے دی تھی۔اتفاق سے وزیراعظم کے دورہ کے وقت حالات خاصے ہنگامہ خیز اور متنازع ہوگئے ہیں۔ماسکو نے ہمسایہ ملک یوکرائن کے مشرقی حصہ کی خودمختاری کوتسلیم کرتے ہوئے اس کی حفاظت کے لیے اپنی افواج تعینات کردی ہیں۔امریکہ‘ یورپ اور ان کے اتحادی ممالک ماسکو کے اس اقدام کی مذمت اور سخت مخالفت کررہے ہیں۔ بعض لوگ اس دورہ کے ٹائمنگ پر معترض ہیں لیکن ہمارے وزیراعظم کا جانا پہلے سے طے تھا اس لیے اسے یوکرائن کی صورتحال سے نتھی نہیں کیا جانا چاہیے۔ بین الاقوامی تعلقات میں عام بات ہے کہ دو ملکوں کے درمیان کئی معاملات پراختلافات ہوتے ہوئے تعلقات ہوتے ہیں اورملاقاتیں‘ بات چیت جاری رہتی ہے۔وزیراعظم عمران خان کا ماسکو جانا پاکستان کی خارجہ پالیسی اور معیشت کے لیے کئی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے روس سے تعلقات مثالی نہیں رہے لیکن کچھ عرصہ سے برف پگھلنا شروع ہوئی ہے۔ انڈیا نے امریکہ اور روس دونوں سے تعلقات استوار کیے۔ بظاہر غیرجانبدارانہ خارجہ پالیسی کا علم اٹھایا لیکن حقیقت میں دلی کے حکمران ماسکو سے زیادہ قریب تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تزویراتی شراکت کے معاہدے کیے گئے ۔ اسوقت امریکہ نے چین کے اثر و روسوخ کو محدود کرنے کی غرض سے بھارت کو اپنا قریبی ساتھی بنایا ہوا ہے۔پاکستان کو ہر طرح کے اسلحہ کی فروخت بند کی ہوئی ہے۔ واشنگٹن نے پاکستان کو دباؤ میں رکھنے کی خاطر ہمیں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میںرکھا ہوا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) میں امریکہ کے ووٹ سب سے زیادہ ہیں۔ اس نے پاکستان کو سخت ترین شرائط پر قرض دیا ہے۔ ظاہر ہے اسکے پیچھے وائٹ ہاؤس کی معاندانہ پالیسی ہے۔ واشنگٹن میں بھارتی لابی بہت مضبوط ہوچکی ہے۔ امریکہ نے بھارت میں مسلمانوں اور کشمیریوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ صدر بائیڈن اتنے متکبر اور سامراجی ذہن کے مالک ہیں کہ انہوں نے آج تک ہمارے وزیراعظم سے رابطہ نہیں کیا۔ انہیں خیرسگالی کی فون کال کرنا پسند نہیں کیا حالانکہ امریکی افواج کو کابل سے پُر امن طور پر نکلنے میں ہماری حکومت نے ان کی بھرپور مدد کی۔امریکی ریاست افغانستان میں اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کو تسلیم کرنے کی بجائے پاکستان کو اپنی شکست کا ذمہ دار سمجھتی ہے لیکن کھُل کر اعلان نہیں کرتی۔ البتہ میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ذریعے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتی رہتی ہے ۔ بہرحال‘ تعلقات مثالی نہ ہونے کے باجودامریکہ ہمارا سب سے برا تجارتی پارٹنر ہے۔ پاکستان سے سب سے زیادہ سامان خریدنے والا ملک ہے۔ کورونا وبا سے مقابلہ کے لیے اس نے پانچ کروڑ سے زیادہ ویکسین خوراکیں ہمیں مفت فراہم کی ہیں۔جس طرح امریکہ نے پاکستان سے محدود تعلقات کی پالیسی اختیار کی ہے ہم بھی امریکہ سے تعلقات خراب کیے بغیر روس سے اچھے تعلقات کو فروغ دے سکتے ہیں۔ عالمی منظر نامہ میں چین اور روس کا گہرا اشتراک و اتحاد وجود میں آچکا ہے۔ پاکستان کی تمام تر فوجی ضروریات چین پوری کررہا ہے۔ ہم نے اپنے جنگی طیاروں کے انجن روس سے بھی حاصل کیے۔ کچھ اسلحہ یوکرائن سے بھی خریدا۔ امریکہ اور یورپ میں پاکستان کے اسلامی تشخص کے خلاف سخت بغض وعناد پایا جاتا ہے لیکن روس اور چین اس معاملہ میں مسلمان ممالک کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔مغرب کے برعکس یہ دونوں بڑے ممالک مسلمانوں پر اپنی تہذیب مسلط نہیںکرنا چاہتے ۔ صدر پیوٹن نے توہین رسالت کے معاملہ پر مغرب کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس فعل کی مذمت کی۔ان کے اس بیان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک نفسیاتی مدد ملی۔ روس سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میںبہت ترقی یافتہ ملک ہے۔ تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ وسط ایشیائی ممالک گیس سے مالا مال ہیں۔ رُوسی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی غرض سے نئے خطوں کی تلاش ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں قدرتی گیس کی شدید قلت ہے۔ ہمیں گیس کے پائپ لائن نیٹ ورک کی ضرورت ہے۔ ملک کے اندر اور وسط ایشیا سے منسلک کرنے کے لیے ۔ رُوسی کمپنی گیز پروم پائپ لائن بچھانے میں مہارت رکھتی ہے۔ یورپ کو گیس مہیا کرتی ہے۔ کراچی سے لاہور تک پائپ لائن بچھانے کے لیے روسی کمپنی کے ساتھ معاملات طے ہوچکے ہیں۔ امید ہے کہ وزیراعظم کے دورہ میں اس معاہدہ کو حتمی شکل دی جائے گی۔قازقستان سے افغانستان کے راستے پاکستان تک گیس پائپ لائن بچھانے کے منصوبہ میں بھی روس سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ اگر ان منصوبوں پر کام شروع ہوجائے تو چند برسوں میں ہمارے ملک میں ایندھن کی فراہمی کا نقشہ ہی بدل جائے گا۔ گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ اور بجلی بنانے کی خاطر وافر گیس دستیاب ہوگی۔ کسی ملک کے ساتھ ہر معاملہ میں اتفاق ہونا ضروری نہیں۔ ہمیں امریکہ‘ روس اور چین کے ساتھ ایسی خارجہ پالیسی بنانی چاہیے۔ جن چیزوں میں اشتراک ہوسکتا ہے ضرور کریں۔جہاںمعاملات میں اختلاف ہے ان میں تعاون نہ کریں۔ روس اور یوکرائن کے جھگڑے میں پڑے بغیر ماسکو سے اچھے تعلقات قائم کرنا ہمارے مفاد میں ہے۔ صنعتی ترقی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی تعلیم میں روس ہمیں بہت مدد فراہم کرسکتا ہے۔ جبکہ پاکستان اسکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کیلیے ایک موزوں ملک ہے۔وہ ہماری بندرگاہوں سے استفادہ کرسکتا ہے۔ افغانستان میں امن قائم کرنے میں ہم دونوں کا مشترکہ مفاد ہے۔ دونوں ملک ان مشترکہ مفادات پر اچھے تعلقات کو پروان چڑھائیں