Minhaj ulrab 14

شہری علاقوں کے مسائل اور ان کا انتظامی حل

منہاج الرب

مارچ 14۔۔۔2022

بشکریہ روزنامہ جنگ

کراچی، لاہور، اسلام آباد پاکستان کے بڑے شہر قرار دیئے جاتے ہیں۔ وہیں ان کے مسائل بھی بڑے ہیں۔ خاص طور سے کراچی کے مسائل، جن کا انبار کسی صورت کم نہیں ہورہا ہے۔ بغور جائزہ لیا جائے اور کئی سوالوں کے جواب تلاش کئے جائیں۔ پہلا سوال: آیا ان شہروں کے مسائل کیا ہیں ؟ بدامنی اور امن وامان کا مسئلہ، چوری، ڈکیتی، صفائی ستھرائی، پینے کا پانی، نکاسئ آب(sewerage)، کوڑے کرکٹ کا انتظام ( waste management)، سڑکوں پہ لوگوں کا لوٹا جانا یعنی چھینا چھپٹی (snatching)، بےترتیب شہر کا بڑھنا، گداگروں، بھکاریوں کی بھرمار، وغیرہ وغیرہ۔ دوسرا سوال: یہاں شہروں کا انتظامی ڈھانچہ کیسا ہے؟ یہاں کا نظم ونسق زیادہ تر علاقوں میں بلدیاتی نظام اور کئی خاص علاقوں میں کنٹونمنٹ بورڈ کے تحت ہوتا ہے۔ تیسرا سوال: آخر یہ مسائل ہوتے کن کن علاقوں میں ہیں؟ عموما یہ غریب علاقوں اور خاص طور سے شہری حکومت کے زیر انتظام علاقوں میں ہوتے ہیں۔ چوتھا سوال: شہری مسائل کی وجہ سے لوگ کن علاقوں میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں؟کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقوں کا نظم و نسق بہت بہتر ہوتا ہے اور وہاں بدامنی نہیں ہوتی، لہذا ان علاقوں کو اچھے علاقوں میں جانا جاتا ہے۔ مالی طور پر مستحکم افراد ان علاقوں میں رہتے ہیں اور جو وہاں رہنا افورڈ نہیں کرسکتے تو وہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ وہ بھی انہیں علاقوں میں رہ سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور گھروں کی قیمتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں۔پانچواں سوال: اب ایسی کیا وجہ ہے کنٹونمنٹ بورڈ کا نظم ونسق بالکل درست اور شہری حکومت کا نظم ونسق تقریبا ناکارہ؟ آخر ان دونوں کے انتظامی امور چلانے کے طریقے میں کیا فرق ہے؟ یہ ایسے سوالات ہیں کہ جن کا جواب ملنا اتنا آسان نہیں۔ اگر قارئین کو کچھ اندازہ ہو تو ضرور رائے دیں۔چھٹا سوال: کیا ان دونوں طرح کی حکومتوں کے مالی مختلف ہوتے ہیں؟ جی نہیں، ایسا قطعا ممکن نہیں کیونکہ حکومتیں پہلے اپنے اخراجات کا تعین کرتی ہیں اور پھر وسائل تلاش کرتے ہیں ان اخراجات کو پورا کرنے کے لئے۔ ایسے میں شہری حکومتوں کا وسائل کی کمی کا رونا سمجھ سے بالا تر ہے۔ بجٹ بناتے وقت وہ درست تخمینہ کیوں نہیں کرتیں کہ آگے چل کر انہیں مشکل نہ ہو۔ ساتواں سوال: کنٹونمنٹ بورڈ کے اراکین وسائل کی کمی کا شکار کیوں نہیں ہوتے؟ یقینا وہ اپنے اخراجات کے مطابق فنڈز جمع کرتے ہوں گے لہذا ان کا انتظام احسن طور سے چلتا ہے۔ایسے میں رائے عامہ یہی ہے کہ جب شہر کو چلانے کے لئے دوہرا نظام اختیار کیا گیا ہے تو اس سے بہتر یہ ہے کہ ایک تجربہ کیا جائے۔ جو ادارہ (کنٹونمنٹ بورڈ) زیادہ بہتر طور پر کام کررہا ہو اسی ادارے کو پورے شہر کا ذمہ دار بنا دیا جائے۔ ممکن ہے کہ شہری مسائل میں کچھ کمی آجائے۔ اور شہریوں میں امتیاز ختم ہوجائے۔ اور اگر بالفرض کنٹونمنٹ بورڈ پورے شہر کا نظم ونسق

چلانے میں ناکام ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ چھوٹے علاقہ میں کام کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر کو پھیلانے کی غلط منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست میں شامل ہونے بہتر ہے کہ ہمارے شہر “رہنے کے لئے بہترین شہروں کی فہرست” میں شامل ہوں۔ تاکہ یہاں کے رہنے والوں کو سکھ کا سانس ملے۔شہروں کو بڑھانے کی بجائے انتظامی لحاظ سے نئے چھوٹے شہر بسائے جائیں تاکہ کنٹونمنٹ بورڈ کی طرح ان کا نظم ونسق با آسانی چلایا جاسکے۔ نہ کہ مسائل کے انبار میں گہرے لوگوں کی فریاد اور حکومت وقت کے لئے ان بد دعائیں سنی جائیں بحر حال فیصلہ ارباب اختیار ہی کو کرنا ہے ہم تو صرف رائے ہی دے سکتے ہیں۔ سنا پھر سمجھنا اور پھر سمجھ کے اس پر عمل درآمد کرنا اہل اقتدار ہی کا کام۔ چاہتے ہیں سو آپ کریں عوام۔کو عبث بدنام کیا! شاعر سے معذرت

 

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.