دوسری شادی
بلال رشید
مارچ ۱۰۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
عرب کے برعکس برصغیر میں دوسری شادی اتنا خوفناک مسئلہ کیوں ہے؟ مرد کہتے ہیں کہ عورتیں اللہ کا حکم نہیں مانتیں۔ جواب سادہ ہے: جس دن آپ اپنی شادیوں میں مہندی، دودھ پلائی اور جوتا چھپائی جیسی ہندوانہ رسومات ختم کردیں تو عورتوں سے بھی شرع کی پیروی کا مطالبہ جائز ہوگا۔ یہ سرتاپا ایک ہندو معاشرہ تھا اور ہے۔ یہاں دوسری بیوی کا کوئی تصور تھا ہی نہیں۔ اگر کبھی آئی تو سازش کے راستے اور پہلی کا گلا دبا کر۔ اسی لیے پہلی بیوی کو زمانہ نہایت ترس بھری نظروں سے دیکھتا ہے۔ یہاں 95فیصد دوسری شادیوں میں پہلی بیوی کے حقوق سلب کر لیے جاتے ہیں۔
اب دوسری طرف آئیں۔ میری درخواست ہے کہ ہر نوجوان کم از کم ایک بار کاروبار کی کوشش ضرور کرے۔ جب سے میں نے کاروبار شروع کیا ہے، بڑے بڑے لوگوں کی ایسی ایسی اصلیت سامنے آئی ہے کہ آدمی ششدہ رہ جائے۔ آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ داڑھیوں، عماموں اور تسبیحات سے قطع نظر اندر سے مسلمان کون ہے؟ چھوٹا استاد ایک زندہ مثال ہے جس پاس دولت کمانے کے بہت سے منصوبے ہیں مگر یہ سارے منصوبے استاد کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ پانچ سال پہلے، جب میں نے ’’مشیہ میٹ‘‘ کے نام سے گوشت کی دکان بنائی تو پہلا واسطہ پڑا۔ راولپنڈی میں اس نے ایک ہوٹل کھول رکھا تھا۔ اس کا منصوبہ یہ تھا کہ گوجر خان کی تمام تقریبات وہاں منتقل کر دی جائیں اور ہن برسنے لگے۔ اس نے گوشت کا معیار چیک کیا اور اسے نہایت عمدہ قرار دیا۔ اس کے بعد مگر جس نرخ کا مطالبہ کیا، وہ میری خرید سے بھی کم تھا۔ میں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی۔ وہ اپنی ضد پہ اڑا رہا۔
اگلے روز بڑے طنطنے سے اس نے ایک محفل میں اعلان کیا: مشیہ میٹ کا گوشت انتہائی ناقص ہے۔ گزشتہ روز اسی کی وہ تعریف کر رہا تھا۔ میں حیرت سے اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ اپنی انا کا غلام، ایک منتقم مزاج آدمی۔ یہ تھا وہ شخص، جس نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھا تھا کہ اس کی دعائیں بہت قبول ہوتی ہیں!
گوجر خان کے سالانہ تعلیمی سیشن میں پھر یہ منظر بھی چشمِ فلک نے دیکھا کہ استاد اندر لیکچر دے رہے تھے اور چھوٹا استاد باہر پاجامے فروخت کر رہا تھا۔ دور دراز سے تحصیلِ علم کے لیے گوجر خان آنے والا ہر طالب علم چھوٹے استاد کے لیے ایک گاہک تھا۔ اس کی معاشیات گوجر خان پہ مرتکز ہے۔
تیسرا دھچکا خوفناک تھا۔ چھوٹے استاد کی طرف سے واٹس ایپ پر ایک برتن کی تصویر موصول ہوئی، جس پر اسمائِ الٰہی درج تھے۔ حیرت کے عالم میں، میں نے پوچھا: کتنے کا؟ جواب ملا: دو ہزار روپے۔ سو روپے کا بھانڈا، پچاس کی لکھائی، باقی چھوٹے استاد کی دیہاڑی۔ ہر تسبیح گزار کو وہ یہ ٹینڈے بھانڈے بھیج رہا تھا۔
برطانیہ سے ایک معزز خاتون نے ایک عجیب کہانی سنائی۔ چھوٹے استاد سے رابطہ کیا کہ پروفیسر صاحب سے ملنا ہے۔ اس نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ آج ممکن نہیں۔ پھر کبھی ملوا دوں گا۔ انہوں نے کسی اور شخص سے رابطہ کیا اور اس نے ملاقات کروا دی۔ ملاقات کے بعد جب وہ باہر نکلیں تو چھوٹا استاد باہر غیض و غضب کے عالم میں اچھلتا پھر رہا تھا۔ انہیں دیکھ کر وہ حلق کے بل چیخا: کر لی آپ نے اپنی مرضی۔ کر لی اپنی مرضی؟ انہیں ایسا محسوس ہوا، جیسے پروفیسر صاحب اس کی میراث ہیں۔
انہی دنوں پروفیسر صاحب کو نام بتا کر سوال کیا: کیا ان بچوں کی آپس میں شادی مناسب رہے گی؟ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے، ساتھ بیٹھا ہوا چھوٹا پھدک کر بولا: بالکل ہو سکتی ہے۔ وہ اتنا کاریگر ہے کہ استاد کے ساتھ بغل گیر ہوتے ہوئے ایسے ایسے زاویے سے اپنی تصاویر بنا رکھی ہیں کہ صاف اندازہ ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ اصل استاد کے قریب اور کوئی نہیں۔ آپ ایک تصویر دیکھیں گے کہ بڑی رقت کے ساتھ وہ دعا کر رہا ہے اور پسِ منظر میں بیچارے اصل استاد بھی دعا کرتے نظر آئیں گے۔ چھوٹے استاد کی دعائیں بڑی رفتار سے قبول ہو رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ وہ لیکچر سننے والوں کو اپنے بھانڈے اور پاجامے بھی بیچتا جا رہا ہے۔ اللہ نہ چاہے تو کوئی کسی کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ آپ مصلیٰ بچھا لیں اور دن رات مجھے بد دعائیں دیتے پھریں۔ دیکھتے ہیں ان کی دعائوں کی مار کہاں تک ہے۔
مسعود نے اب ایک برقع پوش بیوہ چھوٹے استاد کو مہیا کی ہے۔ پتہ نہیں کیا لین دین ہوا ہے کہ چھوٹا استاد آہ و زاری کرتا ہوا گوجر خان کی سڑکوں پہ اس طرح پھدکتا پھر رہا ہے، جیسا اس کا جگر بس پھٹنے ہی والا ہو۔ دونوں مل کر اسکینڈل تراشنے کی کوشش کر رہے ہیں اور میں محظوظ ہو رہا ہوں۔ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں اگر دوسری شادی کا فیصلہ کر لوں تو میری بیوی میں اتنی جرأت ہی نہیں کہ مجھے روک سکے۔ یہ کام تو خوف زدہ چوہے ہی کرتے ہیں کہ دس دس سال خفیہ شادیاں چلائیں۔ میں مگر برصغیر کے اس گھٹے ہوئے معاشرے میں اپنی بیوی کو ترس بھری نظروں کا ہدف کیوں بنائوں؟ راز کی اصل بات یہ بھی ہے کہ دوسری شادی ہنی مون پیریڈ تک ہی دوسری ہوتی ہے۔ اس کے بعد پہلی دوسری برابر ہو جاتی ہے۔ اصل خوبصورتی سسپنس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ دولت اور عورت کی پیاس اضافے کے ساتھ گھٹتی نہیں، بڑھتی ہے۔