Mahmood Sham 10

انسان دوست سفارت کار ایسو مورا۔ الوداع

محمود شام
مارچ ۱۰۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ

 

جنہیں جھاڑا تھا گردِ رہ سمجھ کر

وہی ذرے ستارے ہورہے ہیں

پاکستان کی اکثریت دم بخود ہے۔ میرے ہم عمر تو حیرت زدہ بھی ہیں اور بڑے کرب میں بھی۔ ہم سب سات دہائیوں سے یہی دیکھتے آرہے ہیں کہ ہماری اشرافیہ کی توانائیاں، صلاحیتیں، کروڑوں اربوں روپے اسی طرح حکومتیں بدلنے کیلیے استعمال ہوتے آئے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے کروڑوں پاکستانی یہ تماشا دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ چند لاکھ کے لیےتو اس میں بڑا کیف اور اشتیاق ہوتا ہے۔ مگر اکثریت دم سادھے یہ دنگل دیکھتی ہے۔ ایک سنجیدہ طبقہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کاش ہماری یہی طاقت، ذہانت اور دولت حالات بدلنے کے لیے استعمال ہوتی تو آج پاکستان کے عوام کی زندگی کتنی آسان ہوتی۔ کاش ہماری اشرافیہ ملک کو خود کفیل بنانے اور ایک سسٹم تشکیل دینے کے لیےبھی اسی طرح فعال اور بے تاب ہوتی۔ ان دنوں میڈیا، چوپالیں، ڈرائنگ روم اور بازار سب، جگہ یہی چرچا ہے کہ عمران خان گرنے والے ہیں۔ کسی نے آج تک تحقیق نہیں کی کہ ایسی مہم جوئیوں پر کروڑوں کی یہ سرمایہ کاری قوم کے کس کام آتی ہے۔ 75سال سے یہی صدائیں آرہی ہیں۔ ’’ چہرے نہیں نظام کو بدلو‘‘۔ لیکن چہرے بدلنے کا تماشا ہمیشہ ہائوس فل رہتا ہے۔ جہاں نظام بدلنے کی کوششیں ہوتی ہیں وہاں ایک نظر ڈالنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ دیکھیں اس بحرکی تہہ سے اچھلتا کیا ہے۔

…………

بچے۔ جوان۔ بزرگ اس بلند قامت جاپانی سفارت کار کو سننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔پہلے تو ایک جاپانی چھ فٹ قد کا۔ پھر وہ اتنی روانی سے اُردو بولتا ہے۔ ہم اسے غیر ملکی سمجھ کر انگریزی مار رہے ہوتے ہیں۔ وہ ہمارا جواب بہت ہی شستہ اُردو میں دے رہا ہوتا ہے۔ اسے اُردو شعراء، ناول نگاروں کے فن سے آگاہی ہے۔ عام طور پر سفارت کار جس ملک کی نمائندگی کررہے ہوتے ہیں صرف اس کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن زیادہ کامیاب اور انسان دوست سفارت کار وہ ہوتے ہیں جو اپنے ملک اور اپنی تعیناتی والے ملک دونوں کے مفادات کا پاس رکھتے ہیں۔ سفارت کاری کی معراج یہی ہوتی ہے۔ ایک صحافی اور بقول جناب وجاہت مسعود ایک ’’بزرگ صحافی‘‘ ہونے کے ناطے سفیروں اور قونصل جنرلوں سے واسطہ رہا ہے۔ 1970 کی دہائی میں تو فوجی حکومت نے اس تعلق واسطے کے حوالے سے ہمارے خلاف کئی مہینے انکوائری بھی کی کہ میں روسی ایجنٹ ہوں۔ بڑی پیشیاں ہوئیں۔ آئی بی والے اپنے پرانے نئے دفاتر میں بلاتے رہے۔ تان اس پر ٹوٹی کہ اپوزیشن لیڈر بھٹو صاحب سفیروں سے ملتے رہتے ہیں۔ آپ رپورٹنگ کرتے ہیں ہمیں بتادیا کریں کہ کیا باتیں ہوئیں۔ وہ ہمیں روسی ایجنٹ کے ساتھ ساتھ اپنا ایجنٹ بھی بنانا چاہتے تھے۔ 1960کی دہائی میں ہمیں پاسپورٹ بھی اس لیے نہیں جاری کیا تھا کہ ہم نے لاہور میں روسی طائفے کی رپورٹنگ کی تھی۔ یہ ساری دلچسپ اور تکلیف دہ تفصیلات اپنی خود نوشت ’’شام بخیر‘‘ میں قلمبند کررہا ہوں۔

سفارت کاروں سے رابطوں کے دوران ایسے انسان دوست ایلچی بھی ملے جو نو آزاد ملک پاکستان کا حقیقی معنوں میں درد رکھتے تھے اور یہاں کے اسکولوں، اسپتالوں کو اپنے ملک کے معیار تک لانا چاہتے تھے۔ 64سالہ توشی کازو ایسو مورا۔ کراچی میں سندھ اور بلوچستان کے لیے جاپان کے قونصل جنرل رہے ہیں۔ عام طور پر مدت 3سال ہوتی ہے۔ لیکن جاپان نے پاکستان دوستی کے جذبے کے تحت ایسو مورا کو یہاں 6سال تک رہنے دیا کہ اس نے پاکستان میں جاپان کی نیک نامی میں وسعتیں پیدا کیں۔ اُردو زبان اورینٹل کالج لاہور سے سیکھی۔ جاپان والے اپنے سسٹم کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ وزارت خارجہ کی یہ تقرریاں نہ تو حکومتی رشتے داریوں کے تحت ہوتی ہیں نہ ہی وہاں فوج اور سویلین کا کوئی کوٹہ ہے جس ملک میں تعیناتی مقصود ہوتی ہے اپنے سفارت کاروں کو وہاں کی زبان، ثقافت، رسم و رواج اور علاقوں کی تفہیم کے لیے ایک طالب علم کی حیثیت سے بھیجتے ہیں۔ ایسو مورا نے پاکستان کا گوشہ گوشہ دیکھا اور سمجھا تھا۔ پھر انہیں باقاعدہ تعینات کیا گیا۔ اُردو ادب کو جاپان میں ترجمہ کروایا۔ جاپانی ناولوں۔ قدیم اور جدید کو اُردو میں۔ ایک ہزار سال پرانا ناول ’گینجی‘ ان میں نمایاں ہے۔

ایسو مورا نے ذاتی دلچسپی لے کر سندھ میں نابینائوں، بہروں، بچوں، غریبوں کے لیےتعلیم اور صحت کے کئی شعبوں میں ہزاروں ڈالر کی اعانت دلوائی۔ نارتھ کراچی میں ایک پورا چلڈرن اسپتال بناکر حکومت سندھ کے حوالے کیا۔ سماعت سے محروم بچوں کی مدد کے لیے قائم ایف ای ایس ایف کو 77ہزار ڈالر کی اعانت کی۔ مفت اور معیاری علاج کرنے والے انڈس اسپتال کے لیے 86ہزار ڈالر کا عطیہ۔ جاپانی بہت ہی امن پسنداور انسان دوست قوم ہیں۔ ان کے ہاں ایک امدادی محکمہ ہے۔ Gross Root Human Security Projects ۔ عوامی سطح پر تحفظ انسانی کے منصوبے۔ اس کے تحت غریب قوموں کی مدد مختلف شعبوں میں کی جاتی ہے۔ 2017سے 2022 تک کے اپنے قیام میں بہت سے ادارے ہیں جن میں ایسو مورا نے سندھ بلوچستان میں جاپانی حکومت سے مالی امداد دلوائی ہے۔ مٹیاری میں 78ہزار ڈالر سے اسکولوں کی عمارتیں تعمیر کروائی ہیں۔

اب ایسو مورا ریٹائر ہوکر جاپان واپس جارہے ہیں۔ امید ہے پاکستانی قوم خاص طور پر سندھ کی حکومت۔ شہری اور دیہی سندھ کے انسان دوست۔ اُردو کے عشاق انہیں شایانِ شان طریقے سے رخصت کریں گے۔ اپنے پورے مشرقی آداب اور خاص طور پر سندھ کی میزبانی کی روایات کے ساتھ۔مجھے سوئٹزرلینڈ کے قونصل جنرل ایمل وِس بھی یاد آتے ہیں۔ وہ تو پاکستان کے عاشق ہیں۔ بہت انسان دوست۔ میں انہیں ماڈرن صوفی کہتا ہوں۔ انہوں نے بھی اپنے قیام کے دوران سندھ بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہت مدد دلوائی۔ پاکستان کا ٹرک آرٹ انہیں اتنا پسند آیا کہ اپنے کئی اٹیچی کیسوں پر یہ نقوش ابھارے۔ ان اٹیچی کیسوں کے ساتھ وہ پوری دنیا میں سفر کرتے ہیں۔ لاکھوں مسافروں کی نظریں پاکستان سے روشناس ہوتی ہیں۔ پاکستان کے کئی اداروں کو وہ باقاعدگی سے عطیات اب بھی دے رہے ہیں۔ ہر سال 14اگست کو ہمارے یوم آزادی پر پاکستان آتے ہیں۔ معذوروںاور نابینائوں کے اداروں میں جاکر جشن آزادی مناتے ہیں۔ اب تو ڈائمنڈ جوبلی کا سال ہے۔ اس بار ان کے ارادے بلند ہیں۔ ان کے بعد آنے والے قونصل جنرل نے تو کراچی میں سوئٹزرلینڈ کا قونصل خانہ ہی بند کروادیا کہ یہ ان کے ملک کی وزارت خارجہ پر بوجھ تھا۔ایسو مورا، ایمل وِس جیسے سفارت کار اپنے ملک کےلیے کتنی خیر سگالی پیدا کرجاتے ہیں۔ جہاں بھی رہیں۔ خوش رہیں۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.