Assadullah 9

گھر کی بات گھر میں رہے تو اچھا ہے

اسداللہ خان
مارچ ۹۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲نیوز   

علیم خان کی سیاسی پیش قدمی ایک طرح سے تحریک انصاف کے فائدے میں ہے۔ مگر اس کے لئے انا کے بت توڑنے پڑیں گے۔تحریک انصاف سمجھداری کا ثبوت دے تو گھر کی بات گھر میں رہ سکتی ہے ۔ علیم خان ایک زمانے سے ناراض ہیں۔بہت عرصے سے وہ لب کشائی پر آمادہ تھے مگر جہانگیر ترین نے انہیں روک رکھا تھا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کو اکثریت ملی تو وزارت اعلیٰ کے لیے علیم خان کے نام کی گونج سب سے زیادہ تھی۔ وزارت اعلیٰ تو نہ ملی مگر سینئر وزیر کے طور پر بھی انہیں نہ چلنے دیا گیا۔نیب کا کیس بنا تو پارٹی نے انہیں فراموش کر دیا۔آہستہ آہستہ وہ دور ہوتے چلے گئے اور سیاسی معاملات سے کنارہ کش ہو گئے۔ سیاست کے گرما گرم ماحول میں اب ان کی اینٹری ہوئی ہے ، ایک ایسے وقت میں کہ جب چودھری پرویز الٰہی موجودہ سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اکیلے ہی امیدوار بنے بیٹھے تھے اور خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے، اٹھلا اٹھلا کے کہتے تھے ’’ہانڈی چڑھی ہے تو ظاہر ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ ضرور نکلے گا‘‘ ۔ایک ایسے وقت میں علیم خان بڑی اکثریت کے ساتھ منظر عام پر آگئے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے لیے اب ایک نہیں دو آپشنز ہیں۔ اب چودھری پرویز الٰہی میدان میں اکیلے نہیں رہے۔ اپوزیشن علیم خان کو ساتھ ملا کر بھی تحریک عدم اعتماد لا سکتی ہے۔ علیم خان سے پارٹی کے وفادار کارکنوں کا ایک شکوہ ضرور ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ علیم خان اگر ناراض تھے تو کئی ماہ پہلے اپنی ناراضی کا اظہار کر دینا چاہیے تھا۔ آج اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے اس ماحول میں وہ منظر عام پر آئے ہیں تو موقع و مطلب پرست بن کے آئے ہیں۔ ان کے اس اقدام سے بلیک میلنگ کی بوآتی ہے۔ لیکن دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی اپنی سیاسی چالیں ہرگز سمجھداری کے ساتھ نہیں چلیں۔ اسے معلوم تھا کہ علیم خان اور جہانگیر ترین ناراض ہیں مگر انہیں منانے کا خیال آج تک کسی کے ذہن میں نہیں آیا۔آج جب پانی سر سے اوپر ہو گیا تو عمران اسمعیل کو منانے کے لیے بھیج دیا۔ اگر علیم خان واقعی ایسے شخص ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں اور انہیں اسی لئے سائیڈ لائن کیا گیا تھا اور انہیں اسی وجہ سے آج تک منایا نہیں گیا تھا تو پھر آج ایسے شخص کو کیوں منایا جا رہا ہے ۔اور اگر آج منایا جا سکتا ہے تو چھ مہینے پہلے ہی ایسا کیوں نہ کر لیا گیا۔یہی صورتحال جہانگیر ترین کے ساتھ بھی ہے ، آج ان کی صحت کے بارے میں فون کر کے پوچھا جا رہا ہے ، پہلے خیال کیوں نہ آیا ۔ پچھلے کالم میں بھی ذکر کر چکا ہوں کہ پنجاب کی ایک اعلیٰ ترین سیاسی شخصیت سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے’’ افسوس اس بات کا ہے کہ نوبت یہاں تک آنی ہی نہیں چاہیے تھے۔ سیاسی لوگ سیاسی مصالحت میں دیر نہیں کرتے،لیکن غیر سیاسی لوگ سیاسی فیصلے کریں گے تو پھر یہی کچھ ہو گا‘‘۔ خبریں ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کور کمیٹی سے کہا ہے کہ اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا غلط تاثر دے رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اور اسٹیبلشمنٹ ہر حوالے سے ایک پیج پر ہیںاور دونوں اداروں کے بیچ کوئی اختلاف نہیںلہذا گھبرانے کی ضرورت نہیں۔عمران خان نے کہا کہ پُر اعتماد رہیں اور پُراعتماد نظر آئیں ،یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد سے تحریک انصاف کے رہنمائوں کے لب و لہجے میں زیادہ اعتماد جھلکنے لگا ہے ۔ وزیر اعظم کی بات ہو سکتا ہے درست ہو اور واقعی وفاقی حکومت کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی اختلافات نہ ہوں ۔ ایک اختلاف تو مگر پھر بھی ہے اور وہ ہے وزیر اعلی پنجاب پر ۔ مقتدر حلقوں کے جانب سے ایک سے زائد بار وزیر اعظم سے وزیر اعلی پنجاب کی تبدیلی کی درخواست کی گئی ہے مگر عمران خان نے اسے رد کر دیا۔ آج جب وزیر اعلی پنجاب کی تبدیلی کے امکانات پیدا ہوئے ہیں تو عین ممکن ہے مقتدر حلقے اس معاملے پر نیوٹرل نہ رہیں ۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ علیم خان نے ایم پی ایز کے گروپ کے ساتھ نئی سیاسی چال چلنے کا فیصلہ جہانگیر ترین کے ایما پر ہی کیا ہے ، واضح رہے کہ جہانگیر ترین لندن میں نواز شریف سے ملے ہیں جہاں جہانگیر ترین نے یقینا اپنی شرائط پیش کی ہوں گی۔ ممکن ہے یہ وہیں طے پایا ہو کہ ترین گروپ کو مزید مضبوط بنا کر چودھری پرویز الٰہی کے مقابلے میں لایا جائے اور وزیر اعلی کے لیے انہیں سپورٹ کیا جائے ۔ چودھریوں سے پرانی مخاصمت کے باعث ن لیگ کے لیے انہیں وزیر اعلیٰ کی پیشکش کرنا ہرگز آسان فیصلہ نہیں تھا تبھی تو پنجاب میں اب تک ڈیڈ لاک بنا ہوا تھا۔ بلاول سمجھا رہے تھے کہ پرویز الٰہی کو سپیکر سے بڑھ کر کچھ دیں گے تو وہ آمادہ ہوں گے۔لیکن انہیں وزارت اعلی دینے پر نواز شریف آمادہ نہ ہوتے تھے ۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف کے لیے سب سے اچھا سیاسی آپشن یہی ہے کہ جہانگیر ترین اور علیم خان سے صلح کر لے۔ وزیر اعظم موجودہ وزیر اعلی کو برقرار رکھنے کی ضد چھوڑ دیں۔اگر افہام و تفہیم کے ساتھ علیم خان یا ان کے گروپ سے کسی شخص کو وزیر اعلی بنا دیا جاتا ہے تو اپوزیشن کی سیاسی سازشیں دم توڑ جائیں گی اور نیا وزیر اعلی بھی پی ٹی آئی سے بن جائے گا۔گلے شکوے بھی دور ہوں گے، حکومت کو استحکام بھی ملے گااور سب بڑھ کر یہ کہ گھر کی بات گھر ہی میں رہ جائے گی مگر اس کے لیے انا کے بت توڑنے پڑیں گے۔

 

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.