Saudia Qureshi 4

طلسمی پینوراما

سعدیہ قریشی
مارچ ۴۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲ نیوز۔

یہ احساس بالکل ایک طلسم جیسا تھا ادھر فون پر چند نمبر گھماتی ادھر پسندیدہ شخصیات حاضر ہو جاتیں۔ نہیں! بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ پسندیدہ شخصیات کے سامنے ایک مداح کی صورت میں حاضر ہوجاتی۔ فون الہ دین کے چراغ سے کم نہ تھا چراغ رگڑتی تو ناآباد وقتوں سے منیر نیازی کی آواز سنائی دینے لگتی۔ اپنے پسندیدہ نثر نگار مستنصر حسین تارڑ کی خود پسندی میں لپٹی ہوئی وہ شناسا آواز آتی جو اسے زمانہ طالب علمی کی خوبصورت صبحوں سے جوڑتی۔ کبھی احمد ندیم قاسمی کی گھمبیر آواز سحر طاری کرتی تو اسے اس بے بدل تخلیق کار کے پی ٹی وی مشاعروں میں پڑھے ہوئے اشعار یاد آجاتے۔ کبھی وہ نظم کے شہنشاہ وزیر آغا کو اپنی نظم سنانے کی جر أت کر گزرتی کبھی ،بانو آپا سے کوئی اچھی حکمت سے بھری ہوئی بات سن کر پلو سے باندھ لیتی۔۔۔یہ سب کچھ کسی جادونگری جیسا تھا۔ کسی طلسم کی طرح خوابناک اس لیے تھا کہ وہ لڑکی جنوبی پنجاب کے دور دراز شہروں میں پلی بڑھی تھی۔ سکول سے لے کر یونیورسٹی تک تمام بڑے تعلیمی ادارے جنوبی پنجاب کے قدر ے پسماندہ دائرے ہی میں رہے۔ ایم اے پنجاب یونیورسٹی سے کرنے کا موقع ملا بھی تو بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کا انتخاب کیا تاکہ جہاں رہوںوہ شہر ماں سے دور نہ ہو ۔ لاہور جیسے ادبی مرکز سے دور رہ کر بھی وہ لڑکی ان تمام روشن دماغوں سے ان کی تحریر کے وسیلے سے جڑی ہوئی تھی۔ جو ملاقات حرف و لفظ کے ذریعے آپ اپنے پسندیدہ تخلیق کاروں سے کرتے ہیں وہ پتھر پر لکیر جیسی ہوتی ہے۔لفظوں کے آئینوں سے دیکھی ہوئی تخلیق کار کی شخصیت آپ کے شعور اور لاشعور کا حصہ بن جاتی ہے۔آپ جب ان کی تحریریں پڑھتے ہیں ملاقات ہو جاتی ہے۔ نظمیں لکھنے والے، کہانیوں کو اپنے حرفوں کی جاگ لگانے والے لکھاری سب اس کے دل سے قریب تھے۔ مگر ان سے ملاقات کبھی نہیں ہوئی تھی۔ ویسے سچ بتاؤں تو اسے خواہش بھی نہیں تھی لفظوں کے توسط سے ملاقات جو ہو جاتی تھی۔ عزیزقارئین، وہ لڑکی آج اخبار میں کالم لکھتی ہے اور آپ سے مخاطب ہے۔جی ہاں کل ایک پرانی ڈائری دیکھی جو آغاز صحافت کے دور کی تھی ادیبوں ،صحافیوں ،شاعروں، فنکاروں کے رابطہ نمبر نوٹ کیے گئے تھے۔اپنے اپنے میدان کے شہسوار کیسے کیسے روشن ستارے اپنی چمک دکھاکر ڈوب گئے۔ صحافت میں پہلی اسائنمنٹ مجھے ادب کے حوالے سے ملی تھی ۔کہا گیا کہ کسی موضوع پر سروے کرنا تھا ۔میگزین ایڈیٹر نے نامور شاعروں اور ادیبوں کے ناموں کی فہرست دی اور ساتھ ہی مظفر محمد علی کا نام اور ان کے دفتر کی ایکسٹینشن درج تھی۔ کہاکہ ان سے بات کرکے ان لکھاریوں کے رابطہ نمبر لے لیں۔ مظفر محمد علی صاحب سے ایکسٹینشن پر بات کی ۔پہلے تو اپنا تعارف کروانا پڑا پھر بتایا کہ میری پہلی دفتری اسائنمنٹ ہے۔میرے پاس تو کسی کا کوئی نمبر نہیں۔ انہوں نے بڑی شفقت سے رہنمائی کی۔ تمام نمبرزمجھے دیے۔ میں ان کی رہنمائی سے ہمیشہ مستفید ہوتی رہی ۔ادبی صفحے کے سروے کے لئے اس روز کی بڑی شخصیات سے پہلی بار رابطہ ہوا۔ مجھے آج بھی یاد ہے احمد ندیم قاسمی ،مستنصر حسین تارڑ، منیر نیازی، ڈاکٹر وزیر آغا، خالد احمد سے بات ہوئی۔ عطا الحق قاسمی اورامجد اسلام امجد سے بات ہوئی۔اس روز تو واقعی ایسے لگا کہ کوئی خزانہ ہاتھ آگیا واہ کیا بات ہے۔ مجھے لگا کہ صحافی ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جس شخصیت سے چاہیں بات کر سکتے ہیں اور پھر جیسے کہ میں نے بتایا ہے کہ میں کبھی اپنی زندگی میں ایسی شخصیات سے کبھی نہیں ملی تھی۔ بیٹھے بیٹھے نمبر گھما کر ان سے بات کر لینا کیا کمال کا تجربہ تھا۔ صحافت میں بھی اس وقت بڑے نام تھے جیسے ارشاد احمد حقانی جن کو ہم بچپن سے پڑھتے آئے تھے۔ اپنے دفتر کی راہداری میں آتے جاتے ان کو دیکھنا، سلام کرنا۔ کبھی وہ کسی کالم کی تعریف کردیتے تو بس کئی روز اسی سر شاری میں گزر جاتے۔ 2005 کے زلزلے میں ایک نظم میں نے لکھی، جی چاہا کہ یہ نظم کسی بڑے کو سناؤں ۔ جھٹ ڈاکٹر وزیر آغا کا نمبر ڈائل کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے فون اٹھا لیا ۔میں جو نوواردان چمن تھی، ادب آداب اور سلیقے سے نابلد ایک نادان بچے کی سی جرأت سے بولی سر! ایک نظم کہی ہے کیا میں آپ کو سنا سکتی ہوں ؟عظیم تخلیق کار نے اعلی ظرفی سے کہا کہ ضرور سنائیں۔ تو جناب ہم نے نظم سنانا شروع کر دی ،ڈاکٹر وزیر آغا صاحب نے بڑے تحمل سے نظم سنی اور اس پر بڑی داد بھی دی اور مجھے کہا کہ یہ نظم تو آپ نے بڑے جذب کے عالم میں لکھی ہے۔ بس آج تک وہ نظم ڈاکٹر وزیر آغاسے منسوب ہے میں جب اس نظم کو پڑھ لو ں، مجھے ڈاکٹر صاحب کی حوصلہ افزائی یاد آتی ہے۔بے بدل تخلیق کار احمد ندیم قاسمی سے ملنے مجلس ترقی ادب کے دفتر گئی۔ واپس آنے کے لیے اٹھی تو کھڑے ہوگئے ۔میں نے کہا آپ زحمت نہ کریںمگر سر رہ گزر گھنے پیڑ جیسا شخص مسکرا کر بولا: بیٹی کو رخصت کر رہا ہوں۔ ہائے کیسے کیسے لوگ اس شہر میں تھے راستو! کیا ہوئے وہ لوگ جو آتے جاتے میرے آداب پہ کہتے تھے کہ جیتے رہیے! عہد ساز صحافی، بے مثل ڈرامہ نگار منو بھائی سے پہلی ملاقا ت بھی یاد ہے۔ وہ میگزین ایڈیٹر صہیب مرغوب کے کمرے میں موجود تھے ۔لگتا تھا پورا کمرہ ان کی شخصیت کے گلیمر سے بھرا ہوا تھا اور میں انہیں ایک توصیف بھری حیرت سے دیکھتی تھی۔ انتظار حسین سے ان کے گھر کی قدیم طرز سے سجی ہوئی بیٹھک میں بیٹھ کر گلاس بھرا ٹھنڈا شربت پیتے ہوئے ’’فراموش‘‘ کی کہانی کا بھید جاننے کی کوشش کرنا اپنی آنکھوں پر یقین نہ آنا کہ واقعی میں انتظار حسین سے مل رہی ہوں۔جنوبی پنجاب میں پلی بڑھی لڑکی کے لئے یہ سب کچھ سنہرے چاند چہروں کا ایک طلسمی پینوراما تھا۔ منظر تبدیل ہو چکے مگر طلسم ابھی باقی ہے۔

 

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.