Kishwer Naheed 3

گرہ پہلے کون سی کھلے گی

کشور ناہید
مارچ 3۔۔۔2022
بشکریہ روزنامہ جنگ

راچی میں تو حکومت اس وقت ڈاکوئوں، اندھا دھند گولیاں چلانے والوں اور شادیوں پہ زیورات سے لدی خواتین کو گہنوں کے بوجھ سے آزاد کرنے والوں کی ہے۔ بہت دن کے بعد سندھ کے سربراہ کو ہوش آیا ہے۔ شاید انہیں بھی ہماری طرح علم ہوا کہ پولیس کے سربراہ دن میں ڈیوٹی اور رات میں ڈاکہ گروپ کے سربراہ ہوتے ہیں۔ بھئی تنخواہیں محدود ہیں اور قیمتیں آسمان پر۔ پھر ان پولیس والوں نے سندھ ہی میں منشیات کارنرز میں بھی تو وقت گزاری کرنی ہوتی ہے۔ یہ الگ بات کہ سندھ کے اندرون، بچوں کے اسکولوں کی عمارتیں ہی نہیں ہیں۔ ٹی وی پر خبر چل جائے تو کچھ ہل جل ہوتی ہے۔ ہمارے بہت سارے دوست وزیر ہیں۔ اب ان کو برا بھلا کہتے ہوئے لاج آتی ہے مگر پلٹ کر پنجاب کی جانب دیکھو تو ایک ضلع میں 151لڑکیاں بازیاب کی گئی ہیں۔ یہ سلسلہ کب سے شروع تھا اورکون جی دار تھا کہ اس نے یہ حوصلہ کیا، ورنہ بزدار صاحب کے اپنے علاقے ڈی جی خان میں ترقیاتی منصوبہ اگر کوئی ہے تو ادھورا پڑا ہے۔ سرائیکی صوبے کا شور تو ہر حکومت کے دور میں رہا، مگر کچھ قدم بڑھے ہیں اور نیمے دروں اور نیمے بروں والی کیفیت ہے۔ وزیراعظم کے لاڈلے وزیراعلیٰ چونکہبہت معصوم ہیں۔ اندر خانہ جو کچھ ہو جاتا ہے، اس کی خبر ہفتوں بعد ان تک پہنچتی ہے۔ فورٹ منرو، بالکل مری کی طرح ٹھنڈا اور خوبصورت ہے۔ اس کی سیاحتی اہمیت کو ان پورے ساڑھے تین سال میں اجاگر کرنا تو کجا، نام ہی نہیں لیاگیا۔ اس طرح چولستان میں سیاحت کے کتنے مواقع بن سکتے ہیں مگر لاہور کے قریب راوی شہر بنانے کا جنون ہے۔ اللہ کرے کسی منزل پر تو ٹھہرے۔

اب طالبان کی دھمکیاں سنیں۔ لڑکیوں کے تعلیمی ادارے نہیں کھول رہے مگر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ ہمیں تسلیم کرو ورنہ دشمنی کے دروازے تو کھلے ہیں۔ اُدھر ہندوستان میں نعرہ تو ہے ’’بیٹی بچائو۔ بیٹی پڑھائو‘‘ مگر حالات یہ ہیں کہ شادی کی پیشکش ٹھکرانے پہ ماں کے سامنے بیٹی کا گلا کاٹ دیا جاتا ہے۔ کہیں بھی کسی ملک میں بھی عورتوں کے ساتھ زیادتیاں کوئی انوکھی بات نہیں۔ جہاں تک بے پر کی اُڑانے والوں کا تعلق ہے۔ مجھے یاد ہےایک صاحب خود ہی حکومت کے خلاف اور حکومت کے حق میں وزیروں کے نام سے بیانات چھپوا دیتے تھے۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کہے کہ میرا نام کیوں استعمال ہورہا ہے۔ ایوب خان کے دورمیں فیک نیوز کا یہ شور تھا کہ الطاف گوہر اور قدرت اللہ شہاب خاص اخبار ایوب خان کے سامنے پیش کرنے کے لئے بنوایا کرتے تھے۔ اس وقت کی حکومت کے تو 34ترجمان ہیں۔ کھیتی بھری ہوئی ہے، ہر طرح کے بیانوں سے ساری دنیا میں جھوٹ اور سچ کی تمیز گم ہوگئی ہے۔ اب تو وکیل بھی نور مقدم کیس میں کہانیاں گھڑ رہے ہیں۔ جیسے سب کو معلوم ہے اور اب تو دنیا بھر کے میڈیا نے دکھا بھی دیا مگر ہم سوئس اکائونٹس میں بڑے بڑے سیاست دان اور جرنیلوں کے نام اپنے ہی ملک میں نہیں لکھ سکتے۔ ایک اور سچ یہ ہے کہ چاہے جنوبی کوریا، روس یا امریکہ میں کوئی صدر، کوئی وزیراعظم پکڑا جائے اور آپ امید لگائیں کہ ہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہوگا مگر یاد رکھیں بھٹو اکیلے شخص تھے جو بلا کسی جرم یا کرپشن کے نہ صرف پکڑے گئے، تختہ دار پر بھی لے جائے گئے۔ یہی حال پیاری بینظیر کا بھی ہوا۔ باقی کھاتے رہے، کھلاتے رہے اور قوم کے سینے پر مونگ دلتے رہے۔ وجہ کیا ہے۔ اب غور کریں، قیام پاکستان کے بعد پہلا دعوت نامہ آیا روس سے، بعد میں منگوایا گیا امریکہ سے۔ جو ہم 1952ء سے امریکہ کے چنگل میں پھنسے ہیں تو آج تک ہم خود نہیں نکلے۔

ابھی اتنا لکھا تھا کہ سامنے خبر پروفیسر قاضی عابد اور ڈاکٹر مہدی حسن کی رُحلت کی آگئی۔ مہدی حسن اور ہم یونیورسٹی میں ایک زمانے میں اکٹھےتھے۔ساری عمر پڑھانے، سکھانے اور رقیبوں سے طرح طرح کے طعنے سننے کے باوجود، انسانی حقوق کے لئے عاصمہ جہانگیر اور رحمان صاحب کے ساتھ کام کرتے 85سال کی عمر میں الوداع کہا مگر قاضی عابد نے تو دوپہر کو کتابیں خریدیں، اپنی بنائی لائبریری کے لئے اور شام کو سناونی آگئی۔ پچھلے دنوں کراچی میں ملاقات ہوئی تھی۔ ان کی تو بہت سی کتابیں مکمل کرنے کی تیاری تھی۔ ملتان بھی لاہور کی طرح لکھنے پڑھنے سے فارغ ہوتا جارہا ہے۔ اب بڑھتے ہیں کہ آئرن کرٹن والے ملک میںجہاں جانا ہر ایک کے نصیب میں نہیں۔ آج سے چالیس برس پہلے، جب فیض صاحب، عبداللہ ملک، مظہر علی خان اور ہم جیسے لوگ روس جاتے تھے تو رجعت پسند اخبار اور دانشورہماری تکذیب کرتے تھے۔ آج جب ہمارے وزیراعظم بلائے گئے ہیں۔ معلوم نہیں کون سا سبق پیوٹن پڑھادیں کہ اپنے ملک کی وہ بیس برس زمام حکومت سنبھالے رہیں گے اور ہمارے وزیراعظم کی گھر سے دفتر تک ڈولتی کشتی، تقریباً منجھدار تک پہنچ گئی ہے۔ مڑ کے دیکھنے کا راستہ بھی نہیں ہے۔ شاید اس دورے کے بہانے چالیس سال پہلے لگائی اسٹیل مل پھر سانس لینے لگے، پیوٹن صاحب نصیحت نامہ ان کے ہاتھ میں تھماتے، یوکرین کی طرح مصلحت سے کام لیں۔ دیکھ لیا ناں وہاں مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔ ہم تو بہت ہی نازک شاخ پر آشیانہ بنائے ہوئے ہیں۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتا ہے۔ یہ نہ ہو کہ نہ جائے ماندن، نہ پائے رفتن۔ بورس جانس کورونا کے دنوں میں پارٹیاں علی الاعلان نہ بھی کریں پھر بھی پکڑے جاتے ہیں۔ اب پچھتائے کیا ہوت۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.