امریکہ نے یوکرائن کو جنگ میں دھکیل دیا
اسدءللا خان
فروری ۲۵۔۔۲۰۰
بشکرہ روزنامہ ۹۲نیوز
وزیر اعظم عمران خان کا دورہ روس کچھ اور وجوہات کی بنا پر بہت اہم تھا ، لیکن پھر یہ وجوہات ثانوی حیثیت اختیار کرگئیں اور پوری دنیا اس دورے کو روس کے یوکرین پر حملے کے تناظر میں دیکھنے لگی۔لیکن کیا فرق پڑتا ہے پیغام تو وہی جانا تھا جو اب جائے گا۔ پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون ہے جس نے جنگ کے وقوع پذیر ہونے میں سب سے زیادہ کردار ادا کیا ۔کہا جاتا ہے سی آئی اے جنگیں بناتی ہے اور امریکہ دونوں فریقوں کو ہتھیار بیچتا ہے۔اس مقصد کے لیے وہ تنازعات کو جنم دیتا ہے، انہیں پروان چڑھاتا ہے ، مسائل کی پرورش کرتا ہے ، یہاں تک کہ جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے ۔اس بار بھی اس جنگ کو بنانے میں امریکہ کا اہم ترین کردار رہا ہے لیکن صرف ہتھیار بیچنے کے لیے نہیں بلکہ اس بار مقصد روس کی سرحد پر اپنی جنگی طاقت کو بڑھانا تھا۔ واضح رہے کہ 1990 سے پہلے یوکرائن روس کے بعد سوویت یونین کا سب سے بڑا حصہ تھا ۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یوکرائن مشرقی یورپ کا حصہ بن گیا ۔1949 میں میں نیٹو کے وجود میں آنے کے بعدوقتا فوقتا مختلف ممالک کے اس میں شامل ہونے کا عمل جاری رہا۔12 یورپی ممالک تو ابتدا سے ہی نیٹو کا حصہ تھے لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے بعد امریکہ نے مشرقی یورپ کے چھوٹے ممالک لٹویا، اسٹونیا،لتھونیا وغیرہ کو بھی نیٹو اتحاد میں شامل کر لیا۔ یہ ممالک یورپ کے مشرقی ممالک ہونے کے ساتھ ساتھ روس کے سرحدی ممالک بھی ہیں ۔ ان ممالک کے نیٹو میں شامل ہونے پر بھی روس کو فطری طور پر اعتراض تھا لیکن یہ اعتراض اپنے عروج پر تب پہنچا جب سب سے بڑے سرحدی ملک یوکرائن کے نیٹو میں شامل کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔ روس نے باقاعدہ طور پر با آواز بلند یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت کی کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنے سے نیٹو افواج باقاعدہ طور پر روس کی سرحد پر پہنچ جائیں گی اور اس کی سالمیت کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ روس کا یہ خدشہ بالکل صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایسا ہونے کے بعد امریکہ نیٹو پلیٹ فارم کے ذریعے روس کے سر پر آ بیٹھے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ روس نے اس معاملے پر زیروٹالرنس کا مظاہرہ کیا اور امریکہ اور یورپ کو اپنی سرحد تک نہ پہنچنے کے لیے خبردار کر دیا۔ روس چاہتا تھا امریکہ تحریری طور پر ضمانت دے کہ یوکرائن کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائے گا لیکن امریکہ نے تحریری طور پر ایسی ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے روس اس سے پہلے ’’ڈونیسٹک‘‘ اور’’ لوہانسک‘‘ کے سرحدی علاقے جنہیں ’’ڈون باس ریجن‘‘کہا جاتا ہے اور جن میں پہلے سے علیحدگی پسندوں کا قبضہ تھا ، کو آزاد ریاست تسلیم کر لیا اور ان میں اپنی فوجیں اتار دیں تاکہ یوکرائن پر دبائو ڈال کر نیٹو میں شامل ہونے سے روکا جائے ۔ اس دوران امریکہ روس کو مختلف پابندیوں کی دھمکیاں دے کر یوکرائن پر حملے سے باز رہنے کے لیے خبردار کرتا رہا ۔اسی تناظر میں تیسری عالمی جنگ کے خطرے سے بھی آگاہ کیا جاتا رہا۔ تاثر یہ ملتا رہا کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو نیٹو تنازعہ کی وجہ ہونے کے باعث جنگ میں کود جائے گا یوں تقریبا پورا یورپ اس جنگ کا حصہ بن جائے گا ۔ اسی وجہ سے یوکرائن کو بھی یہ تاثر ملتا رہا کہ امریکہ اور یورپ روس کے خلاف اس جنگ میں اس کے ساتھ کھڑے ہو جائیںگے۔ یہی سمجھ کو وہ روس کو للکارتا اور آخری دم تک مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتا رہا۔ دلچسپ بات یہ نیٹو کا حصہ بننا یوکرائن کے لیے نہیں امریکہ کے لیے اہمیت کا حامل تھا۔بڑے بڑے بیان دینے والے امریکہ نے روس کے حملے کے بعد پینترا بدل لیا اور بیان دیا کہ وہ جلد از جلد جنگ بندی چاہتا ہے لیکن یوکرائن کی اس جنگ کا حصہ نہیں بنے گا ، ایسا ہی اعلان نیٹو کی جانب سے بھی کیا گیا کہ وہ اس جنگ کا فریق بننے کے لیے تیار نہیں۔ اب واپس آئیے وزیر اعظم عمران خان کے دورے کی جانب۔ اس بات کا امکان موجود تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی کے دوران روس یوکرائن پہ حملہ کر سکتا ہے ۔ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ موجودہ حالات میں عمران خان کو اپنا دورہ ملتوی کر دینا چاہیے۔ورنہ یہ تاثر ملے گا کہ روس کے حملے کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کوکونسا تاثر دینا سفارتی سطح پر سوٹ کرتا ہے ؟ روس یوکرائن جنگ سے قطع نظر23 سال بعد پاکستانی وزیرا عظم کا دورہ اپنے اندر خود ایک واضح پیغام رکھتا ہے۔ دنیا کو صاف صاف پیغام مل رہا ہے کہ وہ اب واضح طور پر امریکی کیمپ میں کھڑا ہوا نہیں ہے ۔ بلکہ وہ چین ،روس ،افغانستان اور ترکی کے نئے بلاک کا حصہ ہے ۔ جب پاکستان نے اپنے دورے سے امریکہ کو یہ پیغام دینے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے اور یوکرائن جنگ کے نتیجے میں اگر یہ پیغام زیادہ کھل کر جا رہا ہے تو پاکستان کو اس سے کیا نقصان ہو گا۔ البتہ سفارتی طور پر پاکستان نے یہ ضرور کہا ہے کہ روس اور یوکرائن کو بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل حل کرنے چاہیے اور جنگ سے گریز کرنا چاہیے ۔ پاکستان کے لیے البتہ فیٹف اور آئی ایم ایف جیسے دبائو موجود ہیں ۔ امریکہ ان پلیٹ فارمز کے ذریعے پاکستان کومزید دبائو میں لانے کی کوشش کرے گا۔ خطے کے حالات اور اپنی معاشی مجبوریوں کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو نہایت احتیاط اور سمجھداری کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔پاکستان کو معلوم ہے کہ امریکہ کی دوستی نے اسے آج تک کچھ نہیں دیا ۔نئے امکانات کا جائزہ پاکستان کے مستقبل کے لیے نہایت اہم ہے ۔