جمہوری ارتقا اور سیاست دانوں کی ذمہ داریاں
ایوب ملک
فروری ۲۴۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنک
پچھلے دنوں بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ کے ادارے انٹیلی جنس یونٹ نے ایک بین الاقوامی تحقیقی رپورٹ شائع کی جس میں نئے جمہوری انڈیکس کا اجرا کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان کی جمہوریت کو ہائبرڈ (Hybrid)کا نام دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں167ملکوں کی جمہوریت کا تجزیہ کرتے ہوئے اِس درجہ بندی میں ناروے کو پہلا نمبر، بھارت کو 46 واں، بنگلہ دیش کو 75 واں اور پاکستان کو 104واں نمبر دیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 75سال سے نہ تو مکمل طور پر جمہوریت بحال ہوئی ہے اور نہ مکمل طور پر آمریت۔پاکستانی تاریخ شاہد ہے کہ اس ہائبرڈ نظام کی وجہ سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا، بلوچستان اور دوسری محکوم قوموں میں احساسِ محرومی پیدا ہوا اور مظلوم طبقات کی مزیدسماجی تنزلی ہوئی۔
یہاں یہ دیکھنا ہو گا کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ 75سال گزرنے کے باوجود بھی پاکستان میں جمہوریت اپنی جڑیں سماج میں پیوست نہ کر سکی؟ آئین ہر ملک کا بنیادی قانون ہوتا ہے جس کی روح سے دیگر باتوں کے علاوہ ملک کا سیاسی ڈھانچہ مکمل طور پر واضح کیا جاتا ہے اور اقتدار کی تبدیلی کا طریقہ کار بھی متعین ہوتا ہے۔
کوئی بھی حکومت آئین کے ذریعے ہی اپنی جائز قانونی حیثیت حاصل کرتی ہے لیکن پاکستان میں کئی دفعہ آئینی ضوابط کونظرانداز کر کے فوجی یا نیم فوجی حکومتیں قائم کی گئیں۔ پاکستان میں آئین کو کئی بار منسوخ کیا گیا اور اس پر سپریم کورٹ نے ’’نظریہ ضرورت‘‘کے تحت آئین کی معطلی اور مارشل لا کو حق بجانب قرار دیا۔ پاکستان کو دراصلمارشل لااور آئین کی بیک وقت موجودگی نے ایک غیر معمولی اور غیر فطری صورت حالِ سے دو چا رکر رکھا ہے۔
اس ملک میں ایسا بھی ہوا ہے کہ فوج کے سربراہ ملک کے صدر بن گئے اور وزیروں نے آئین کے حوالے کے بغیر ہی حلف اٹھا لیا جس سے اس کے سوا اور کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں آئین کی پاسداری اور سویلین سپرمیسی کے اہداف کو حاصل کرنے کیلئے پورے سماج کو یکجا ہوکر ایک مسلسل تگ ودو کرتے رہنا ہوگی۔
اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا پڑے گا کہ اب وہ وقت آچکا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے بنیادی مسائل کی طرف مکمل توجہ مبذول کرے، پرانے مفروضوں کی دوبارہ چھان پھٹک کرے اور اپنی ان تلخ حقیقتوں کو دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرے جو جمہوریت کی تنزلی کا باعث بنی۔ سیاسی ماہرین کہتے ہیں کہ اس جمہوری تنزلی کی اصل وجہ پاکستان میں نو آبادیاتی حکمرانی کا تسلسل ہے۔
انگریزوں نے سجادہ نشینوں، جاگیر داروںاور قبائلی سرداروں کو ریاستی لوٹ کھسوٹ کا حصہ بنا کر انہیں حکمرانی میں شامل کیا۔ گو کہ گورے چلے گئے لیکن ہم نے ان کی دی ہوئی حکمرانی کا تصور دل وجان سے قبول کیاجبکہ نہرو نے ہندوستان بنتے ہی جاگیرداری نظام کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جمہوریت کے اس انڈیکس میں بھارت کا 46واں اور ہمارا 104واں نمبر ہے۔
نہرو جی سے کسی نے ایک دفعہ پوچھاتھا کہ آپ نے مسلم لیگ کو علیحدہ ملک بنانے کی حوصلہ افزائی کیو ں کی ؟تو انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جاگیرداری نظام کے خاتمے کے بغیر ایک قدم بھی آگے بڑھنا نا ممکن تھا اور مسلم لیگ کی قیادت جاگیرداری نظام کے خاتمے کیلئے بالکل تیار نہ تھی اور صرف اس اعلیٰ مقصدکے حصول کیلئے میں نے پاکستان کی علیحدگی کا کڑوا گھونٹ پینا گوارا کیا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ جاگیر داری نظام اپنی استعماری قوت کھو بیٹھے گا لیکن جاگیرداری نظام کا تعلق صرف جاگیر کی ملکیت سے ہی نہیں ہوتا بلکہ ریاستی مشینری کے ذریعے انہوں نے ایسا نظام اوربیانیہ پاکستانی سماج کی جڑوں میں پیوست کر دیا ہے جو اگلی کئی دہائیوں تک سماج کو ارتقا پذیر نہیں ہونے گا۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا بھر میں نو آبادیاتی طاقتوں نے سماج کو تقسیم کر کے ہی ان پر حکمرانی کی لیکن آج 75سال گزرنے کے باوجود کیا حکمرانوں، سویلین اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سیاست دانوں کا کیا یہ فرض نہ تھا کہ نو آبادیاتی حکمرانی کے اس تصور سے پاکستان کی جان چھڑاتے۔
2018میں عمران خان کی، حکومت دراصل انہی سر پر ہاتھ رکھنے والوں کی ہی دین ہے اور آج جب کہ پی ڈی ایم اس حکومت کو ہٹانا چاہتی ہے تو مبصرین خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ کہیںیہ بھی انہی کے اشارے پر تو کا م نہیں کر رہی ہو۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کبھی سر پر ہاتھ رکھنے والوں کے اشاروں سے جان نہیں چھڑا پائے گا اور آنے والی تمام سیاسی پارٹیاں انہی کے اشاروں کے انتظار میں رہیں گی جو انہیںبرسرِ اقتداررکھ سکیں۔ اس صورت حال سے باہر نکلنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ پاکستان میں ایک مکمل آزاد الیکشن کمیشن( جیسا کہ بھارت میں ہے)کے ذریعے الیکشن منعقد کروائے جائیں اور تمام ادارے آئین کی روح کے مطابق کام کریں اور تمام سیاسی پارٹیاں اشاروںسے مبرا ہوں ورنہ پاکستان کے عوام آہستہ آہستہ جمہوری عمل سے ہی کہیں متنفرنہ ہو جائیں۔آج پی ڈی ایم اور پی پی پی پر بہت بڑی ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں اور اس ہائبرڈ نظام سے پاکستانی سماج کی جان چھڑوائیں۔ وہ تمام پارلیمنٹیرین جنہوں نے سر پر ہاتھ رکھنے والوں کے کہنے پر سیاسی پارٹیاں بنائیں یا اس نظام کا حصہ بنتے ہوئے مراعات حاصل کیں، انہیں کوئی بھی سیاسی پارٹی اپنی صف میں شامل نہ ہونے دے۔
ان مقاصد کے حصول کیلئے تمام بڑی سیاسی پارٹیاں میثاقِ جمہوریت کا ایک نیا معاہدہ کریں جو پاکستان میں سویلین سپر میسی اور آئین کی پاسداری کی ضمانت ہوورنہ اگلے جمہوری انڈیکس میں پاکستان کا مقام 104سے بھی نیچے گر سکتا ہے۔