اسلامی نظام کا ماڈل
یاسر پیرذادہ
فروری ۲۳۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
دنیا میں اِس وقت حکمرانی کے پانچ ماڈل ہیں۔ خالص جمہوریت، ناقص جمہوریت، ملاوٹ شدہ جمہوریت، آمریت اور
بادشاہت۔ اسلامی ماڈل اِس وقت کہیں رائج نہیں۔ آپ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، ایران، عراق یا مصر کو اگر اسلامی ماڈل کہنا چاہیں تو کہہ لیں مگر اصل میں یہ مسلم ممالک ہیں، اسلامی ماڈل یہاں رائج نہیں۔ آمریت اور بادشاہت کو بھی آپ ایک ہی ماڈل کہہ سکتے ہیں مگر اِس میں تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ سعودی عرب میں بادشاہت جبکہ مصر میں آمریت قائم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی ماڈل والی جمہوریت کسی ملک میں کیوں رائج نہیں؟ کیا ایسا کوئی ماڈل وجود بھی رکھتا ہے؟ اور اگر ہے تو وہ اب تک لاگو کیوں نہیں کیا جا سکا؟
اسلامی جمہوریت یا اسلامی طرزِ حکمرانی پر گزشتہ کئی دہائیوں سے بحث جاری ہے۔ اِس ضمن میں جو دلائل دیے جاتے ہیں اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرکے اللہ کے قانون کو رائج کیا جائے۔ مولانا مودودی نے اپنی کتاب ’اسلام کا نظامِ حیات‘ میں یہی اصول بیان کیے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ایسی اسلامی ریاست میں بالغ رائے دہی کے تحت حکمران منتخب کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر اسرار احمد خلافت کے نظام کے بہت بڑے داعی تھے مگر وہ بھی امریکہ کے صدارتی نظام کو اسلامی ماڈل کے قریب سمجھتے تھے، اُن کا کہنا تھا کہ آج کے جدید دور میں اگر خلافت کا کوئی ماڈل اپنایا جا سکتا ہے تو وہ کچھ رد و بدل کے ساتھ امریکی صدارتی نظام کا ماڈل ہے۔ جاوید غامدی صاحب پارلیمانی جمہوریت کے حامی ہیں اور ایسی فلاحی ریاست کے حق میں ہیں جہاں ہر شخص اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزار سکے۔ اُن کا ماڈل سکینڈینیوین ممالک سے ملتا جلتا ہے۔ اسی طرح کچھ نیک نیت اصحاب کا خیال ہے کہ جب تک ملک میں صالح لوگ برسر اقتدار نہیں آئیں گے اُس وقت تک آئیڈیل اسلامی مملکت کا تصور محال ہے۔ اب یہ نیک لوگ کیسے منتخب کیے جائیں گے، عوام انہیں منتخب کیوں نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تو پھر یہ نیک لوگ ڈیلیور کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا تسلی بخش جواب اب تک نہیں دیا جا سکا۔
اسلامی نظامِ حکومت کا ماڈل خلیفہ یا امیر المومنین کے تصور کے گرد گھومتا ہے۔ اور جب ہم یہ کہتے ہیں تو ہمارے ذہن میں لا محالہ خلفائے راشدین کا وہ سنہری دور ہوتا ہے جو نہ صرف یہ کہ مثالی تھا بلکہ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے کئی سو سال تک دنیا کی امامت کی لیکن خلیفہ کے انتخاب کے طریقہ کار میں اختلاف کے سبب اِس ماڈل کی کوئی جدید شکل سامنے نہیں آ سکی۔ الماوردی وہ پہلا مسلمان مفکر تھا جس نے خلیفہ کی اہلیت اور اُس کی ذمہ داریوں پر مربوط انداز میں تفصیلاً روشنی ڈالی اور ایک طرح سے اسلامی طرز حکمرانی کے خدو خال واضح کیے۔ اپنی کتاب ’الاحکام السلطانیہ‘ میں الماوردی نے اپنے سیاسی نظریات تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ الماوردی کا کہنا ہے کہ امام کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوگا جس کےارکان صالح اور اہل مسلمان ہوں گے، اگر امامت کے لیے ایک ہی موزوں امیدوار ہو تو وہ امام بن جاتا ہے مگر اس کے لیے بھی انتخاب ضروری ہے، یعنی الیکٹورل کالج کی حمایت یا بیعت حاصل کرنا امام کے لیے ضروری ہے۔ اِس امر میں البتہ علما کا اختلاف ہے کہ کتنے افراد کی بیعت سے امام منتخب ہو جاتا ہے۔ اسی طرح امام اپنے بعد ایک یا ایک سے زیادہ امیدواروں کو امامت کے لیے نامزد کر سکتا ہے ۔ اِس کے علاوہ الماوردی نے امام کی ذمہ داریوں اور اختیارات پر بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ امام اسلامی اصولوں کے مطابق ریاست کا نظم و نسق چلائے گا اور چونکہ امام قران و حدیث اور فقہ کا ماہر ہوگا لہٰذا اس سے بہتر اسلامی اصولوں کی تشریح کوئی نہیں کر سکے گا، امام انصاف پر مبنی معاشرہ قائم کرے گا، ملک میں امن و امان قائم کرنے کا ذمہ دار ہوگا، معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی داد رسی کرے گا، طاقتور افراد کو نکیل ڈالے گا، قران کے ضابطوں کے مطابق معاشرے میں قانون کی بالا دستی کو یقینی بنائے گا، سرحدوں کی حفاظت کرے گا، زکوٰۃ اور ٹیکس وصولی کا نظام وضع کرے گا اور جب وہ اپنی اِن ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے گا تو پھر عوام کا بھی فرض ہے کہ نہ صرف اُس کی اطاعت کریں بلکہ اسلامی ریاست کے قیام میں اُس کی مدد کریں۔ امام کو ہٹانے کے طریقے پر الماوردی کا کہنا ہے کہ امام اگر اخلاقی طور پر حواس باختہ ہو جائے اور شریعت کے احکام کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرے تو وہ امام نہیں رہتا اور وہ اگرجسمانی طور پر معذور ہو جائے تو بھی امامت کے لیے نا اہل ہو جاتا ہے۔
بنیادی طور پر اِس ماڈل کے تین پہلو ہیں۔ ایک، امام کا انتخاب، دوسرا، امام کی ذمہ داریاں اور تیسرا، امام کا مواخذہ۔ دوسرے پہلو پر کوئی زیادہ اختلاف نہیں، اصل اختلاف انتخاب کے طریقہ کار اور مواخذے پر ہے۔ مثلاً امام کو کیا ضرورت ہے کہ وہ رعایا کو کفر کا حکم دے اور اپنی حکمرانی کو خطرے میں ڈالے، اسی طرح جسمانی فٹنس کو جواز بنا کر جس طرح مسلمان حکمرانوں نے اپنے بھائیوں اور اقتدار کے ممکنہ امیدواروں کی آنکھیں نکلوائیں اور انہیں بد ترین ایذا رسانی کے ذریعے معذور کیا وہ ہماری تاریخ ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ الماوردی اور دیگر مسلم علما نے امام اور اسلامی مملکت کے کام کرنے کے طریقہ کار پر بہت گراں قدر کام کیا مگر عملاً مسلمان حکمرانوں نے اِس ماڈل کو ملوکیت اور پاپائیت میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ جدید دنیا میں مسلمانوں کے لیے یہ چیلنج اور بھی بڑھ جاتا ہے کہ وہ کوئی ایسا ماڈل بنا کر دکھائیں جہاں اسلامی فلاحی مملکت جمہوری اصولوں پر قائم ہو۔ اِس کے لیے ضروری نہیں کہ ہم پہیہ دوبارہ سے ایجاد کریں، یہ ماڈل دنیا میں رائج ہے، ہمیں صرف اسے اپنانا ہے اور نہلا دھلا کر اسلامی بنانا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ ہم نے پارلیمانی جمہوریت کا ماڈل اپنایا تو ہوا ہے مگر دن رات ہم اس ماڈل پر تبرا کرکے اسے ناکام بنانے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں۔ یوں کوئی ماڈل بھی نہیں چل سکتا۔