پیٹرول احتجاج نہیں انتظام سے سستا ہوگا
محمود شام
فروری ۲۰۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے ملنے ملانے کا دن۔ چھوٹوں سے کچھ سیکھنے۔ ان کے ذہن میں تڑپتے سوالات کے جواب دینے کے لمحات۔ آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے۔
کیسی آزادی۔ کیسی خود مختاری۔اپنے 22کروڑ لوگوں کی جو در اصل ریاست کے مالک ہیں، ان کی مفلسی۔ محدود آمدنی۔ حالتِ زار سامنے رکھنے کی بجائے غیروں کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔ جیتے جاگتے انسانوں کی دھڑکنوں کا نہیں۔ اعداد کا شُمار کرنا ہوتا ہے۔ لوگوں کی نبض پر نہیں بلکہ کیلکولیٹر پر انگلیاں رکھنی پڑتی ہیں۔یقیناً وزیر خزانہ کو احساس ہوگا کہ پیٹرول جیسی ضروری چیز کی اتنی زیادہ قیمت بڑھنے سے ضرورت کی تمام چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں لاکھوں بلکہ کئی کروڑ ہم وطن پلک جھپکنے میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ جب آپ کے سر پر پیٹرول کی قیمتیں منڈلارہی ہوں تو آپ کی سوچ یکطرفہ نہیں ہونی چاہئے۔ ریاست اگر عالمی منڈیوں کے سامنے بے بس ہے اور اسے پیٹرول کے نرخوں میں اضافہ کرنا ہی ہے تو آپ ایسے شعبوں میں تو کچھ راحت دیں جو ریاست کے اپنے بس میں ہیں۔ ریاست اور عوام میں یہی تو معاہدہ ہوتا ہے۔ جس کے تحت آپ حکمران بنے ہیں۔
پہلے پیٹرول کی قیمت بجٹ میں سال میں ایک بار بڑھائی جاتی تھی۔ تب بھی قیامت ٹوٹ پڑتی تھی اب یہ حشر ہر 15 دن بعد ڈھایا جاتا ہے۔ تنخواہ مہینے میں ایک بار ملتی ہے۔ پیٹرول کی قیمتیں مہینے میں دوبار بڑھتی ہیں۔ہر 15دن بعد عوام کو یہ محسوس کروایا جاتا ہے کہ تم کچھ بھی نہیں ہو۔ حشرات الارض ہو۔ ریاست کا اپنا دبدبہ ہے۔ حکومت کی اپنی ہیبت ہے۔ اس ملک میں جو بھی رہتا ہے۔ اپنی ذمہ داری پر۔ اس کی راحت۔ تکلیف۔ نفسیاتی۔ اعصابی دبائو سے ریاست کا کوئی لین دین نہیں ہے۔ ایک اشرافیہ ہے۔ ایک سرکار ہے۔ ایک مافیا ہے۔ ایک نوکر شاہی ہے۔ صدر۔ وزیر اعظم۔ آرمی چیف۔ ججوں۔ جنرلوں۔ سیکرٹریوں۔ سب کو سرکاری خرچ پر لاکھوں لیٹر پیٹرول ملتا ہے۔ اس کے اربوں روپے بھی غریب عوام کی جیبوں سے جاتے ہیں۔ کبھی ہم نے نہیں سنا کہ ان کے پیٹرول کے کوٹے میں کمی کی گئی ہو۔ پارلیمنٹ کے ارکان بھی یہ مزے لیتے ہوں گے۔ اس لیے کبھی کسی نے پارلیمنٹ میں اس پیٹرول کے اعداد و شُمار دریافت نہیںکیے۔
ایک طرف یہ جمہوریے۔ انتخابیے۔ لشکری۔ دوسری طرف خلافیے۔ جنہیں اپوزیشن کہا جاتا ہے۔ وہ پیٹرول کی قیمت بڑھنے پر ببانگ دہل ہر باریہ اعلان کردیتی ہے کہ یہ اضافہ مسترد۔ لیکن خریدتے ہیں اسی بڑھی ہوئی قیمت پر۔ پھر احتجاجی مظاہروں کا اعلان۔ تو کیا یہ مظاہرے پیٹرول کے بغیر ہوں گے۔ گاڑیوں۔ سوزوکیوں۔ ٹرکوں۔ موٹر سائیکلوں سب کو پیٹرول اسی اضافہ شدہ قیمت پر لینا ہوگا۔ 27فروری کا پی پی پی کا لانگ مارچ پیٹرول پمپوں کی کتنی آمدنی بڑھائے گا۔اکیسویں صدی میں عوام کو ستانے۔ لوگوں سے نا انصافی کے طریقے بدل رہے ہیں تو احتجاج کے انداز بھی بدلنے چاہئیں۔اپوزیشن کے احتجاجی بیانوں مظاہروں سے خلقِ خدا کو کوئی راحت نہیں ملتی۔ اپوزیشن کے رہنما سب ماشاء اللہ ارب پتی کروڑ پتی ہیں۔ ان میں سے اکثر کے اپنے پیٹرول پمپ ہیں۔ پیٹرول کے بھی گیس کے بھی۔ انہیں بھی یہ اضافہ کچھ نہیں کہتا۔
ایک ذمہ دار با شعور قوم کی حیثیت سے ہونا تو یہ چاہئے کہ ہمارے ماہرین معیشت۔ دانشور۔تجزیہ کار۔ یونیورسٹیاں۔ کالج۔ تحقیقی ادارے۔ تاجروں صنعت کاروں کی انجمنیں۔ میڈیا۔ ترقی یافتہ مہذب قوموں کی طرح مہنگائی کا اثر کم کرنے کی حکمتِ عملی مرتب کرے۔ متبادل طریقے سوچیں۔ اپنے وسائل بروئے کار لائیں۔ عمران خان چلے جائیں کوئی حکمران بھی آئے۔پیٹرول تو آپ کو درآمد کرنا پڑے گا۔ عالمی منڈیوں کے اتار چڑھائو کا خیال کرنا پڑے گا۔ ان سب پابندیوں۔ شرائط کو سامنے رکھتے ہوئے غریب اکثریت کے لیے کچھ آسانیاں تلاش کی جائیں۔ زمینی حقائق کو پیش نظر رکھ کر لائحہ عمل بنایا جائے۔ میڈیا اور اپوزیشن صرف واویلا مچاتے ہیں۔ مبالغہ آرائی کرتے ہیں۔
یہ مینجمنٹ۔ انتظامیہ کا دَور ہے۔ صورت حال سے کیسے عہدہ برآ ہونا ہے؟ یہ تردد اور فکر من حیث القوم ماری ذمہ داری ہے۔ ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ پیٹرول کی مہنگائی کا مقابلہ ماس ٹرانزٹ سسٹم۔ بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل و حرکت کے انتظام سے کیا جاسکتا ہے۔ ٹرانسپورٹ صوبائی معاملہ ہے۔ مطلوبہ تعداد میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے غریب اکثریت کوموٹر سائیکل کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ایک خطرناک سواری ہے۔ حادثات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ موٹر سائیکل سوار مختلف اعصابی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ گردن۔ کمر کے درد۔ ڈاکٹر مشورہ دیتے ہیں۔ موٹر سائیکل چلانا بند کریں۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ گھر کے چولہے ٹھنڈے ہوجائیں گے۔ ایسی بسیں ہیں نہ مقامی ریلوے۔ جن سے اپنے کام کی جگہوں پر پہنچا جائے۔ اکیسویں صدی کا یہ تقاضا تو ہم پورا کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف۔ عالمی بینک۔ اور عالمی تنظیم تجارت کی شرائط مانتے ہیں۔ لیکن ماس ٹرانزٹ سسٹم بھی اکیسویں صدی کی ضرورت ہے۔ اس کا اہتمام کیوں نہیں کرتے۔
تعلیم۔ صحت کے شعبوں میں عوام کو جس طرح بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں سہولت پہنچارہی ہیں اسی طرح کسی فائونڈیشن کسی سیلانی کسی اخوت کو میدان میں آنا پڑے گا۔ پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی سال میں کروڑوں پاکستانیوں کی روزانہ گھر سے دفتر یا فیکٹری تک آنے جانے کے لیے منافع نہ نقصان کی بنیاد پر بڑا ٹرانسپورٹ نظام قائم کرنا ہوگا۔ قومی سیاسی جماعتیں بھی اگر عوام کی راحت کے لیے مخلص ہیں تو وہ بھی ایسی فائونڈیشنوں کا ساتھ دیں۔ عوام کو نقل و حرکت میں آسانی پبلک ٹرانسپورٹ سے میسر آئے گی۔ احتجاجی مظاہروں اور بیانات سے نہیں۔ احتجاج سے نکلیں انتظام کی طرف آئیں۔