Zahur Dhareja 19

مادری زبانوں میں تعلیم جلد شروع کرنے کی ضرورت

ظہور دریجہ
فروری ۱۹۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ
روزنامہ ۹۲نیو

فروری کے مہینے میں ماں بولی کی اہمیت کے حوالے سے تقریبات کا سلسلہ جاری ہے، 21فروری ماں بولی کا عالمی دن ہے۔ حال ہی میں حکومت پنجاب نے صوبے میں پنجابی اور سرائیکی میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیاہے ، میں نے پہلے بھی لکھا کہ اب بھی کہہ رہاہوں کہ یہ فیصلہ ہر لحاظ سے درست اور خوش آئند ہے مگر اس کی عملی شکل بھی سامنے آنی چاہئے ، جتنا جلد ہو سے مادری زبانوں کی تعلیم رائج کی جائے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں زبانوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، بلاشبہ زبان کا نام انسان اور انسان کا نام زبان ہے۔ زبان ثقافت کا اہم جزو ہے ، پاکستانی زبانوں میں تعلیم سے پاکستانی ثقافت کو فروغ حاصل ہوگااور اس سے پاکستانیت مضبوط و مستحکم ہوگی، پاکستانی زبانوں کا زندہ رہنا پاکستانی ثقافت کی بقاء کیلئے بھی ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جن زبانوںکے بولنے والوں کی تعداد قلیل ہو ، ریاستی امور میں بھی وہ زبان شامل نہ ہو، تعلیمی اداروںمیں بھی نہ پڑھائی جاتی ہو، وہ مٹ جاتی ہے اور ختم ہو جاتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے ادارے بھی متحرک ہو چکے ہیں جن کی کوشش اور مقصد یہ ہے کہ کوئی ایسی زبان جن کے بولنے والے چند ہزار یا چندسو ہی کیوںنہ ہوں کو زندہ رکھنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ہمارے ہاں یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ پاکستانی زبانوں کو بولنے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی کسی بھی زبان اور ثقافت کے ختم ہونے کا مقصد خطے کی تاریخ و تہذب کا اختتام اور موت سمجھا جاتاہے ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ واضح کیا گیاہے کہ مادری زبانوں کا نہ صرف یہ کہ تحفظ کیا جائے بلکہ ان کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے جائیں، پاکستان نے بھی اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں۔ بحیثیت زبان کوئی بھی زبان بُری نہیں ، تمام زبانیں قابل احترام ہیں ان زبانوں کو بھی اہمیت دی جانی چاہیے جو ہزار ہا سال سے اس دھرتی کے لوگوں کے درمیان ابلاغ کے ساتھ ، محبت و اخوت کے رنگ بکھیر رہی ہیں ، لیکن یہ امرافسوسناک ہے کہ ملک کی مقتدر اشرافیہ نہ جانے کس احساس برتری میں مبتلاہے اور مقامی کلچر سے مغائرت برتی جا رہی ہے۔ اپنی ضرورتوں کے تحت ایڈہاک پر بنائی گئی پالیسیاں اور فلسفے ختم کرکے قومی امنگوں اور قومی ضرورتوں کے عین مطابق مستقل رویہ اختیار کیا جائے جس میں پاکستانیت چھلکے۔یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ انگریز نے جب ہندوستان پر قبضہ مکمل کیا تو اس نے زبانوں پر بھی وار کیاکہ اس کو دھرتی کی اصل زبانوں کی طاقت کا علم تھا، انگریز نے یہ بھی کیا کہ مختلف قوموں کو مختلف صوبوں میں ایک دوسرے کے ساتھ گڈ مڈ کر دیا تاکہ وہ متحدہ طاقت کی شکل میں سامنے نہ آ سکیں، اس نے صوبائی حد بندیاں اپنی استعماری ضرورتوں کے تحت مقرر کیں، جس کا ایک مقصد مغلوں کی فارسی کو رخصت کرنا دوسرا دھرتی کی اصل زبانوں کو نیست و نابود کرنا تھا، انگریزوں مصنوعی زبا نوں کو اس لئے فروغ دیا تاکہ کوئی ایسی قوم وجود میں نہ آ سکے جس سے اسے خطرہ ہو، انگریزوںنے ہی اپنے مذموم مقاصد کے تحت اپنے حامیوں کے ذریع مقامی زبانوں کی بجائے مصنوئی زبانوںچڑھانے کا کام لیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انگریز اردو کو پروان چڑھانے کا کام کر رہا تھا تو کچھ ایماندار افسر اپنی دیانتدارانہ رائے بھی دے رہے تھے کہ اصل حق ماں بولیوں کا ہے اور ان کی ترقی اور تعلیم کے ذریعے خواندگی کی شرح میں اضافے کے مقاصد حاصل کئے جا سکتے ہیں، اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر شاہ پور (حالیہ سرگودھا) میجر ولسن کے نوٹ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی کتاب میں جو شائع ہو چکی ہے لکھا ہے کہ ماں بولیاں انسان کو انسان بناتی ہیں اور اگر آپ کسی شخص کو ان کی ماں بولیوں اور ان کے تہذیبی ورثے سے محروم کریں گے تو پھر یونہی سمجھئے انسانی زندگی کی مشینری انسان نہیں روبوٹ چلا رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت بلاتاخیر پورے ملک میں ابتدائی تعلیم مادری زبانوں میں رائج کرے۔ذرائع ابلاغ پر 60فیصد وقت ماں بولیوں کو دیا جائے ۔ پیمرا کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ پرائیویٹ ریڈیو اور ٹی وی چینل کو لائسنس جاری کرتے وقت اس بات کا پابند کرے کہ وہ پروگراموں کا بیشتر حصہ ماں بولیوں میں نشر کریں گے ۔ مادری زبانوں کے فروغ کیلئے اگر کوئی حکومت اقدامات نہیں کرتی تو پھر تقریبات منعقد کرنے کی بھی بظاہر کوئی ضرورت نہیںرہ جاتی ۔ لہذا اگر ہم واقعتاََ ماں بولیوں سے محبت کرتے ہیں توآج فیصلے کا وقت ہے کہ ماں بولیوں کی ترقی کے لئے عملی اقدامات کیے جائیں ورنہ باتوں کا کیا ہے وہ جتنی چاہیں کر لی جائیں۔ آج زبانوں کے درمیان بقا کی ایک کشمکش جاری ہے،کئی زبانیں عالمگیریت کے بہائو میں بہی چکی ہیں ۔ مادری زبانوں کے وجود کو بر قرار رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان میں تعلیم کو عام کیا جائے اور محض کسی ایک زبان پر انحصار نہ کیا جائے ۔علاقائی ثقافتوں کو بچانے اور ان کے فروغ کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ ان میں بولی جانے والی ماں بولیوں کا تحفظ کیا جائے۔ ابتدائی تعلیم کے لئے مادری زبان ہی موزوں ہو سکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے مادری زبان بچہ پہلے دن ہی سے سیکھنی شروع کر دیتا ہے ۔یہ اس کے مزاج کا حصہ بنتی جاتی ہے دوسرے معنوں میں یہ اسے خود بخود حاصل ہوتی جاتی ہے اس لئے جو تعلیم بھی ابتدائی طور پر اس کی مادری زبان میں دی جائے گی وہ اسے جلد ذہن نشین ہوتی جائے گی۔ جو بچے مادری زبان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں وہ ان کے لئے کسی بھی اور زبان کا اکتساب نسبتاََ آسان ہوتا ہے۔ لہذا تعلیم کے فروغ کے نکتہ نظر سے مادری زبانوں کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.