پاکستان سے اچھی خبر آئی
رضا علی عابدی
فروری ۱۸۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
بے شمار نیندیں اڑانے والی اطلاعات کے بعد پاکستان سے ایک اچھی خبر آئی ہے جس کے ساتھ بونس کے طور پر ایک جی کو سرشار کرنے والی تصویر بھی موصول ہوئی ہے۔ایسا کم ہی ہوتا ہے، اتنا کم کہ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ اچھی خبروں نے ہماری جانب نہ آنے کی قسم کھالی ہے۔ خبرکچھ یوںہے کہ نوجوان طالب علموں کے کسی امتحان میں سماعت اور گویائی سے معذور طالب علموں نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور صحت مند لڑکوں اور لڑکیوںسے بہتر پوزیشن لائے ہیں۔اس خبر کے ساتھ اپنی ذہانت اور محنت کا مظاہر ہ کرنے والے ہو نہار نوجوانوں کی تصویر بھی ہے اور کیا خوب تصویر ہے۔ آٹھ دس نہایت وضع دار، نفیس اور روشن روشن چہروں والے یہ جوان ایک میز کے گرد بیٹھے ہیں،ان کی پیشانیوں سے علم کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں اور پورے ماحول اور تمام فضا میں نور ہی نور ہے۔
کیسا جی نہال ہوا ہے۔ یہ سوچ کر کہ پاکستان میں جہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہوتا،کسی نے اچھا کام کر دکھایا ہے۔ہم نے یہ تو سنا اور پڑھا تھا کہ کئی سرکاری اور غیرسرکاری ادارے قوت گویائی اور سماعت سے محروم بچوں کی تعلیم اور تربیت کا اہتمام کر رہے ہیں۔ ہم نے کشمیر کے علاقے میں ان قوتوں سے محروم یتیم بچوں کا بہت بڑا تعلیمی ادارہ بھی دیکھا اور حیران ہوئے۔ مگر یہ خبر پہلی بار نظر سے گزری کہ کانوں اور زبانوں سے محروم بچے تعلیم کے میدان میں نارمل بچوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔اس موقع پر بچوں کو تو جتنا بھی پیار دیا جائے کم ہوگا لیکن ہم ان افراد کو ضرور سلام پیش کریں گے کہ جنہوں نے اُن بچوں کا ہاتھ تھاما ہے جومعاشرے میں دوسروں سے پیچھے رہے جارہے تھے۔ہم مغربی دنیا کو دیکھتے تھے جہاں معذورافراد سر اونچا کرکے جیتے ہیں اور کیا مجال کوئی ان کی طرف توہین آمیز نگا ہ سے بھی دیکھے۔ان کی بات ذرا دیر بعد، پہلے ہندوستان اور پاکستان کو دیکھیں جہاں کسی کا لنگڑا لولا ہونا گناہ، بہرا ہونا جرم اور گونگا ہونا قیامت ہے۔اندھا ہے تو دن جھلنگی چارپائی پر پڑا سوتا رہے گا یا قرآن حفظ کرے گا اور حافظ جی کہلائے گا۔ بہر ا ہے تو سب سے چھپتا پھرے گا اور گونگا ہے تو خود کو گھر میں بند کرلے گا۔اس سے بھی بڑا جرم کسی کے اعضا کا ٹیڑھا بگڑا ہونا ہے۔لوگ اسے دیکھ کر ہنسیں گے، آوازے کسیں گے یا اس کی طرف سکّہ اچھال کر اس کا مذاق اڑائیں گے یا ترس کھاتے ہوئے آگے بڑھ جائیں گے۔ہم سب سمجھتے ہیں کہ معذور نہ ہونا ہمارا حق ہے۔ او ر ہمیں یقین ہے کہ معذور افراد قدرت کی کوئی غلطی ہیں۔ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ حقارت آمیز رویہ تمام معاشروں میں نہیں۔ کچھ معاشرے ایسے ہیں جہاں لوگ ہاتھ پاؤں سے معذور افراد کو آگے بڑھ کر سہار ا دیتے ہیں اور ہاتھ بٹاتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کہ ایک بار میری ایک ٹانگ میں وہ درد ہوا جسےشیاٹیکا کہتے ہیں۔ درد کچھ ایسا تھا کہ مجھے ہاتھ میں چھڑی لینی پڑی۔ اس موقع پر میں نے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان تھا: ہاتھ میں چھڑی لیتے ہی سارے منظر بدل گئے۔لوگ مجھے راستہ دینے لگے۔ بس میں یا ٹرین میں خود کھڑے ہوگئے اور مجھے اصرارکرکے بٹھانے لگے۔ یہ بات میں نے ہندوستان میں بھی دیکھی۔ دلی کے ہوائی اڈے پر میرے ساتھ ترکی کے ایک بزرگ دانش ورتھے۔ ہم بس میں سوار ہوئے جہاں کوئی نشست خالی نہ تھی۔ میں نے ذرا اونچی آواز میں کہا کہ یہ ترکی کے استاد ہیں۔ تین چار جوان یہ سنتے ہی کھڑے ہوگئے اور اپنی نشست ترک بزرگ کے لیے چھوڑ دی۔
اب ذرا برطانیہ کی ایک تازہ خبر۔یہاں سولہ سترہ سال کے ایک جوان نے پورے ملک میں ایک مہم شروع کی ہے جس کا مقصد لوگوں میں اجتماعی شعور پیدا کرناہے کہ جسمانی طور پر کسی کی معذوری کا نہ تو مذاق اڑانا چاہئے اور نہ اسے حقارت سے دیکھنا چاہئے۔یہ مہم چلانے والا جوان جسمانی طور پر معذور ہے لیکن بہت ہی اچھا تیراک ہے اور اولمپک مقابلوں میں اپنے ملک کے لیے سونے کے تمغے جیت کر لاتا ہے۔وہ عوام کو پیار سے سمجھاتا ہے کہ کبھی کسی کی معذوری کا مذا ق نہیں اڑانا چاہئے۔مثال کے طور پر کچھ لوگ ہکلاتے ہیں یا توتلے ہوتے ہیں، یہ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں اور اگر محسوس کریں کہ ان کی معذوری پر لوگ چھپ چھپ کر ہنستے ہیںتو یہ بجھ کر رہ جاتے ہیں۔مجھے یا د ہے بی بی سی کی اردو سروس سے میں بچوں کا ایک پروگرام پیش کر رہا تھا جس کے دو کردار ہکلے تھے۔ ان کی زبان میں لکنت تھی۔ ان کا قصہ بہت ہنسانے والا تھا۔جب قصہ ختم ہوگیا تو مجھے سننے والوں کو دیر تک سمجھانا پڑا کہ چلیے یہ تو لطیفہ تھا،ہم ہنس لیے لیکن اپنی روز مرہ زندگی میں ہم پر لازم ہے کہ اپنے آس پا س کسی میں کوئی جسمانی نقص ہو تو اس کا بہت خیال رکھیں اور اپنی کسی حرکت یا اشارے سے یہ احساس نہ ہونے دیں کہ ہم اس کا مذاق اڑارہے ہیں۔ کوئی ایک آنکھ سے محروم ہو، کوئی ہاتھ پاؤں سے محروم ہو، نا بینا ہوا، گونگا یا بہرا ہو تو اس کے ساتھ یوں پیش آنا چاہئے جیسے ہماری نگا ہ میں وہ ہم ہی جیسا ہے۔ کسی کا دل توڑتے ہوئے یا دُکھاتے ہوئے ذرا دیر کو سوچا جا سکتا ہے کہ ہم بھی اگر ایسے ہی ہوتے تو کس کونے میں منہ چھپاتے۔