حیف۔ صدحیف۔ آج معاشرے میں ناک کی کوئی عزت نہیں رہی۔ ایک زمانہ تھا جب ناک کی عزت اور اہمیت تھی۔ آج مگرکچھ عاقبت نااندیش لوگوں کے قبیح اعمال کی بدولت نہ تو ناک کی عزت باقی رہی اور نہ عزت کی ناک۔ واضح کرتے چلیں ہماری اس تحریر اور تحریک کا ــ’’عزت دو‘‘ کی کسی اور تحریک سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمارا ایجنڈا صرف ناک تک محدود ہے۔
ناک کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ انسانی جسم کے اعضاء میں ایک اہم ترین عضو ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ انسانی جسم میں ناک کی وہی اہمیت ہے جو کسی دفتر میں اعلیٰ افسر کی یا کسی سیاسی جماعت میں لیڈر کی ہوتی ہے۔ محل و قوع کے اعتبار سے یہ انسانی مہرے کے مرکز میں واقع ہے۔ اسی مرکزی پوزیشن کی وجہ سے یہ کسی بھی شخص کی خوبصورتی یا بدصورتی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس طرح دانتوں کے ڈاکٹر یہ نعرہ لگاتے ہیں کہ ’’دانت اچھے تو صحت اچھی‘‘اسی طرح ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ناک اچھی تو صورت اچھی۔ نوحہ اسی چیز کا کہ اتنا اہم عضو آج بے قدری کا شکار ہے۔ اردو شاعری کی گواہی لے لیجیے۔ اردو شعر نے جہاں باقی اعضاء کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملادیے ہیں، وہاں ان کو ناک کی تعریف و توصیح میں ایکمصرعہ کہنا بھی نصیحت نہیں ہوا۔ ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دے ڈالی، آنکھ اور اس کی مستی اور نشیلے پن پر دیوان کے دیوان لکھ ڈالے، زلفوں کے خم نے کئی عاشق مارڈالے۔ وہاں بجز ’’لونگ کے لشکارے‘‘ناک پر لکھنے کے لیے شعراء حضرات کے قلم کی سیاہی خشک ہوگئی۔
بلحاظ ساخت ناک کی تقریباً چودہ اقسام ہیں جیسے بڑی ناک، چھوٹی ناک، چپٹی ناک وغیرہ مگر واضح کرتے چلیں کہ ساخت کے علاوہ بھی ناک کی کئی اقسام ہیں۔ جیسے غریب کی ناک، امیر کی ناک،افسر کی ناک، ماتحت کی ناک وغیرہ۔ جہاں عمر کے حساب سے ناک بڑی ہوجاتی ہے اس طرح عہدہ کے لحاظ سے ناک بڑی اور چھوٹی ہوتی رہتی ہے۔ ایک عام اصول یہ ہے کہ کسی بھی دفتر میں سب سے بڑی ناک سب سے اعلیٰ افسر کی اور سب سے چھوٹی ناک ادنیٰ ترین ماتحت کی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ناک کی ایک اور قسم بھی ہوتی ہے، منقولہ اور غیر منقولہ ناک عام طور پر موم کی بنی ہوتی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ موقع کی مناسبت سے اسے دائیں بائیں موڑا جاسکتا ہے۔
ناک بنیادی طور پر سانس لینے اور سونگھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ قدرت نے اسے دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیا ہے جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ نزلہ زکام کی صورت میںایک حصہ بند ہو تو دوسرے حصے سے کام چلایا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ سونگھنے کی حس کی بدولت یہ آپ کو جرابوں اور بنیان کی تبدیلی کا وقت بتا سکتی ہے۔ ناک کے ساتھ ایک زیادتی یہ شروع ہوگئی ہے کہ اپنے بنیادی مقاصد کے علاوہ، عوام الناس نے ناک کا غلط استعمال شروع کر دیا ہے مثلاً حال ہی میں کچھ لوگوں نے ناک کے ذریعے ایک خاص قسم کا پائوڈر کھینچ کر بیٹھے بیٹھے اپنے آپ کو ’’جہاز‘‘بنانا شروع کر دیا ہے۔ ستم یہاں ختم نہیں ہوتا کچھ لوگوں نے ناک سے نازک عضو سے چنے چبوانے اور لکیریںنکالنے اور ناک میں دم کرنے کا ہر کام شروع کر دیا ہے۔ ناکوں چنے چبوانے اور ناک سے لکیریں نکلوانے والوں میں ساس، لیڈر، افسرانِ بالا اور رشتہ دار سر فہرست ہیں۔ انگریزوں کے ہاں اس کا ایک اور استعمال بھی ہے۔ کہ وہ ناک کے ذریعے Payment کرتے ہیں۔
خواتین و حضرات ناک ایک بہت ہی معصوم عضو ہے، محل و قوع کے اعتبارسے مرکزی پوزیشن پر واقع ہونے کی وجہ سے کسی بھی دو بدو لڑائی کے دورا ن سب سے پہلے مکا اسی پر پڑتا ہے۔یہ ایسے ہی ہے جیسے نانی خصم کرے اور چٹی دوہتا بھرے۔ کبھی سنا کہ کوئی غلط کام کرتے ہوئے کسی کا کان یا ہونٹ کٹ گیا ، ہمیشہ سے ناک ہی کٹتی آئی ہے۔ ناک کٹنے کے حوالہ سے یہ بھی وضاحت کرتے چلیں کہ ناک ہمیشہ مرد کی کٹتی ہے۔ عورت کو اس سے استثنیٰ حاصل ہے جہاں اپنے غلط قول، فعل کا نتیجہ مردکی اپنی ناک کٹنے کی صورت میں نکلتا ہے وہاں مرد اپنے گھر کی عورت کے لیے اپنی ناک کی قربانی دیتا ہے۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ عورت کئی دفعہ اس کی قیمت اپنی گردن سے چکاتی ہے۔
یہاں پر بھی بتاتے چلیں کہ کچھ لوگ اپنی ناک کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں بہت معمولی باتوں پر اپنی ناک کو اونچا کرے، نیچاکرے، حتی کہ چھوٹا بڑا کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں کچھ لوگ یہاں تک حساس ہوتے ہیں کہ اپنی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے۔ مکھی ایک کر یہہ الخلقت مخلوق ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں اسے ناک پر بٹھانے سے گریز ہی کر نا چاہیے۔ ایسے لوگوں کو مگرہمارا مشورہ یہ ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھیں۔ بصورت دیگر آپ جتنا روکنے کی کوشش کریں گے مکھی ناک پر ضرور بیٹھے گی۔ اب وقت آگیا ہے کہ ناک کی عزت بحال کرنی پڑے گی اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس سے صرف وہی کام لیاجائے جس مقصد کے لیے قدرت نے اسے بنا یا ہے اس کو بات بات پر کاٹنا، اس سے لکیریں نکلوانا، چنے چبوانا اسے بلاوجہ خاک میں ملانے سے گریز کیاجائے۔