Saud ullah 9

ہمی سو گئے داستاں کہتے کہتے

سعداللہ شاہ
فروری 9۔۔۔2022
بشکیہ روزنامہ 92نیوز   

یہ اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے یہ خاک باردگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے ابھی ستارا سا چمکا تھا میری پلکوں پر کوئی تو شے ہے جو بود و نبود ڈھونڈتی ہے زندگی کی دھوپ چھائوں بس ایسے ہی ہے۔ بس وہی ہے جو اعتبار کیا۔ جون کے بقول‘ ہائے ہم لوگ بھی مر جائیں گے۔ ایسے شعر ذہن میں آ گیا کہ حافظ و غالب و اقبال سے محبت ہے ہمیں۔ ہم وہی لوگ ہیں جو اپنے زمانے کے نہیں۔ مر بھی جائوں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے۔ لفظ میرے میرے ہونے کی گواہی دیں گے۔ میرے قبیلے کے دو کمال کے لوگ اٹھ گئے مگر میں ان پر الگ لکھوں گا۔ دنیا اچھے لوگوں سے خالی ہوتی جا رہی ہے۔ سب اپنا اپنا کردار نبھا کر چلتے بنتے ہیں۔ موت وہ ہے کہ کرے یاد زمانہ تجھ کو۔ یوں تو دنیا میں سبھی آتے ہیں جانے کے لیے۔ زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب، موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشان ہونا۔ اور اس سے بھی آگے بلھے شاہ اساں مرنا نا ہیں گور پیا کوئی ہور،کیٹس نے بھی کمال بات کی تھی کہ تخلیق کار دو زندگیاں جیتا ہے۔ ایک طبعی زندگی اور دوسری اس کا کام جو وہ کر جاتا ہے: خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے محترمہ بشریٰ رحمن نے بہت بھرپور زندگی بسر کی۔ ہر میدان میں انہوں نے اپنے ہونے کا احساس دلایا۔ موزوں طبع فکشن رائٹر تو وہ تھیں مگر ساتھ ہی شاعرانہ آہنگ ان کے مزاج اور تحریر میں تھا۔ وہ بہاولپور کی مٹی تھیں اور روہی کی بو باس اٹھاتے ہوئے صوفیا کا آہنگ بھی رکھتی تھیں۔ ان کے کالم چادر چار دیواری اور چاندنی میں اکثر سرائیکی کے ایسے اشعار گزرتے جو روح کو چھو جاتے۔ بے شمار محفلیں ان کی یاد دلاتی ہیں۔ ایک مرتبہ حمید نظامی ہال میں محترم مجید نظامی کی صدارت میں بشریٰ رحمن کی گفتگو تھی اور نظامت کرنے والے نے کہا کہ آپ بلبل پاکستان کو سن رہے تھے۔ اس کے بعد ڈاکٹر سلیم اختر آئے تو کہنے لگے کہ بلبل کے بعد کچھ کوے کی بھی سن لیں۔ وہ حاضر جواب بھی بلا کی تھیں۔ اسمبلی میں بڑے بڑوں کو چپ کروا دیتیں۔ وہ تین بار پنجاب اسمبلی کی رکن رہیں۔ ایک وہ شکوہ ہمارے ساتھ کرتی تھیں کہ عمران خان نے ان کی صلاحیتوں کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ محترمہ میں حب الوطنی تو کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کے ادارے کا نام ہی وطن دوست تھا۔ ان کے ساتھ ایک تعلق خاطر تھا۔ یوں تو ان کی کتب کئی جگہ سے شائع ہوئیں مگر میری وساطت سے انہوں نے میرے پبلشر خزینہ علم و ادب سے سب کتب شائع کروائیں۔ اس حوالے سے بھی ان کے گھر کے کشادہ ہال میں بیٹھک ہوئی۔ ان کے ناولوں میں لازوال‘ بت شکن، پیاسی اور خوبصورت ہاٹ کیک تھے۔ ان کا شعری مجموعہ بھی شائع ہوا۔ وہ اپنی والدہ کی کتاب کا مسودہ بھی دکھاتیں اور بڑے فخر سے ان کا تذکرہ کرتیں۔ ان کی والدہ کے پاس انڈوپاک کے تمام میگزین آیا کرتے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ان کی پرورش ہی پڑھائی لکھائی کے ماحول میں ہوئی: ہر طرف بکھر ے رسالے اور کتابوں کا ہجوم میرے کمرے میں پڑے ہیں میری قسمت کے نجوم کچھ عرصہ قبل انہوں نے وطن دوست کے نئے دفتر میں دوستوں کے ساتھ ادبی نشست کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ شہر لاہور کے چنیدہ ادیب اس میں اکٹھے ہوتے۔ آخری نشست مجھے یاد ہے جس میں انہوں نے پرتکلف اہتمام کیا تھا۔ اس میں ایک نمکین کیک بھی کاٹا گیا۔ اچھے اچھے ادیب اس میں مدعو تھے۔ خاص طور پر محترم ڈاکٹر خورشید رضوی‘ اسلم کمال‘ سلمیٰ اعوان‘ تسنیم کوثر‘ سعدیہ قریشی‘ ڈاکٹر اختر شمار اور راقم اس میں شریک تھے۔ سب سے باری باری کلام سنا گیا۔ اس کے علاوہ کچھ نشستیں انفرادی طور پر شخصیات کے ساتھ ہوئیں۔ وہ خود تو ایک قد آور اور نامور ادیبہ تھیں ہی مگر دوسروں کو عزت دینا اوران کے کام کو سراہنا ان کی ایک الگ خوبی تھی۔ کچھ دن انہوں نے 92 نیوز کے لیے بھی کالم لکھے۔ مجید نظامی کی نظریاتی ساتھی بھی تھیں۔ تب وہاں سید ارشاد احمد عارف بھی تھے۔ وہ صحافت کا سنہرا دور تھا۔ محترم عباس اطہر تھے‘ سر راہے والے سلیم صاحب‘ پھر عرفان صدیقی بھی وہیں لکھنے لگے۔ وہ میرے پروگرام غزل مشاعرہ میں بحیثیت شاعرہ صدارت کر کے بہت خوش ہوئیں۔ ہم نے ان سے کلام سنا۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کو اپنی شاعری کا حوالہ بہت پسند تھا۔ ایک چمک سی ان کی آنکھوں میں تھی کہ اصل میں وہ شاعرہ تھیں مگر ایک سوشل اور سیاسی فگربن گئیں۔ خوشی کی بات تو یہ کہ وہ ادب برائے زندگی کی قائل تھیں۔ اس کا ثبوت ان کا ناول لگن ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بے شمار لڑکیوں نے ان سے رابطہ کر کے بتایا کہ لگن سے انہوں نے سیکھا کہ زندگی کیسے کرنی ہے۔ ان کے ناولوں کی تعداد 26 کے قریب ہے۔ سفر نامے بھی ہیں جیسے ٹک ٹک دیدم ٹوکیو۔ ناولوں میں شرمیلی‘ پیاسی‘ چارہ گر نمایاں ہیں۔ آخر میں انہوں نے ممنوعہ کاروبار پر بھی قلم اٹھایا یعنی جسم فروشی پر ناول لکھا۔ وہی کہ معاشرے کے ناسور پر نشتر زنی۔ انہوں نے مجھے وہ ناول عطا کیا تھا اور میں نے ان کے تخیل اور مشاہدے کی داد دی۔ کتابوں کے نئے ایڈیشن آ رہے تھے۔ تب ان کے میاں انہیں چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ ہم تعزیت کرنے ان کے گھر پہنچے۔ اس کے بعد جیسے راج ہنس کی جوڑی نہیں رہی۔ وہ خود کو سنبھال نہ پائیں۔ فون پر بات ہو جاتی۔ پھر انہوں نے لوگوں کے اصرار پر اپنا افسانہ پیش کرنا شروع کیا۔ کچھ کورونا نے بھی میل جول ختم کردیا۔ آخری بات یہ کہ بشریٰ رحمن ہماری اعلیٰ اقدار و روایات کی حامل تھیں۔ وہ قائداعظم کو اپنا رہنما اور باپ کہا کرتی تھیں اور سب سے اعلیٰ بات کہ وہ وفاکیش تھیں۔ اپنے میاں کے کہنے پر سیاست میں آئیں۔ مجھے اس حوالے سے بانو آپا کی بات بہت ہی اچھی لگتی کہ کہتیں: میں نے اشفاق سے ایک قدم پیچھے چل کر عزت پائی۔ یہی وجہ تھی کہ بشریٰ رحمن نے گھر گرہستی کی وجہ سے ایک گھریلو ماحول بنا رکھا تھا۔ ان کے بچے ان کے بہت تابع فرمان تھے۔ چلیے بشریٰ رحمن کا ایک شعر: اظہار محبت میں بڑی دیر لگا دی اک روز مجھے آ کے بتا کیوں نہیں دیتے

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.