Nafees Sidique 7

اب کراچی کی سیاست کیا ہوگی؟

نفیس صدیقی
فروری ۷۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ   

کراچی کے بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے کے لئے متحدہ قومی موومنٹ کی سیاسی اور قانونی جنگ نتیجہ خیز ثابت ہوئی ہے ۔ حکومت سندھ نے بلدیاتی قانون کے ترمیمی بل 2021کے خلاف احتجاج کرنے اور دھرنا دینے والی دو سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی اور پاک سرزمین پارٹی ( پی ایس پی ) کے مطالبات تسلیم کر لئے ہیں جبکہ دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ ( ایس ایل جی اے ) 2013 ءکے خلاف متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) پاکستان کی آئینی درخواست منظور کر لی ہے اور ایکٹ کی بعض شقوں کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے ۔ ان واقعات کے بعد کراچی کے بلدیاتی اداروں کے اختیارات کیا ہوں گے اور اب کراچی کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی ؟ یہ آج کا بنیادی سوال ہے ۔

حکومت سندھ اور جماعت اسلامی کے معاہدے کے مطابق صوبائی حکومت بلدیہ عظمی کراچی ( کے ایم سی ) کے زیر انتظام چلنے والے اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کا کنٹرول واپس بلدیہ کے حوالے کر دے گی ، جو سندھ لوکل گورنمنٹ ( ترمیمی ) بل 2021ء کے تحت سندھ حکومت نے لے لیا تھا ۔ میئر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کراچی ریجن کا سربراہ ہو گا ۔ ترقیاتی اداروں یعنی کے ڈی اے ، ایل ڈی اے اور ایم ڈی اے کے معاملات میں بھی میئر کراچی کا کردار ہو گا ۔ یونین کونسلز کو آبادی کی بنیاد پر فنڈز دیئے جائیں گے ۔ بلدیہ کراچی کے زیر انتظام میڈیکل کالج ’’ کراچی میڈکل اینڈ ڈینٹسٹؒ کالج ‘‘ کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جائے گا جبکہ حکومت سندھ اور پی ایس پی کے معاہدے کے تحت ایسا صوبائی مالیاتی کمیشن ( پی ایف سی ) تشکیل دیا جائے گا ، جو قومی مالیاتی کمیشن این ایف سی کی طرح کسی متفقہ فارمولے پر مالیاتی وسائل اضلاع اور مقامی حکومتوں میں تقسیم کرے گا ۔

دوسری طرف سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کی آئینی درخواست پر ایس ایل جی اے 2013 کی شقوں 74 اور 75 کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے ، جن کے تحت صوبائی حکومت کسی بھی وقت کسی بھی لوکل کونسل کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے سکتی تھی اور کسی بھی کونسل کے اختیارات اور جاری کمرشل اسکیم کے امور بھی سنبھال سکتی تھی ۔ اب وہ ایسا نہیں کر سکے گی ۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ ایکٹ کی دیگر شقوں کو بھی آئین کے آرٹیکل 140۔ اے کے مطابق بنایا جائے ۔

قانونی ماہرین کے مطابق حکومت سندھ کو شق 74 اور 75 کیساتھ ساتھ دیگر شقوں 77 ( اے ) 80 ، 87 ، 88 ، 90 ، 92 ، 98 ، 105 ، 108 (2 ) ، 112 ، 118 ، 119 ، 123 اور 144 (بی) بھی تبدیل کرنا ہوں گی ۔ یہ شقیں کونسلز کے اختیارات اور امور میں صوبائی حکومت کے چیک اور مداخلت سے متعلق ہیں ۔ اسی طرح ایک کے شیڈولز 2 ، 3 اور 4 میں بھی تبدیلیاں کرنا ہوں گی ۔

حکومت سندھ اگر جماعت اسلامی اور پی ایس پی کے معاہدوں اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایکٹ میں ترامیم کرتی ہے تو سندھ خصوصاً کراچی کے بلدیاتی ادارے پہلے سے زیادہ بااختیار ہو جائیں گے اور صحیح معنوں میں جمہوری نظام قائم ہو جائے گا۔ حکومت سندھ نے یہ ترامیم کرنے کا اعلان بھی کیاہے ۔ توقع ہے کہ 11 فروری سے ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں یہ ترامیم منظوری کیلئے پیش کی جائیں گی۔

بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے سے متعلق کراچی کی بعض سیاسی جماعتوں کے مطالبات مکمل نہیں تو بہت حد تک پورے ہو چکے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کا آئندہ سیاسی لائحہ عمل کیا ہو گا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے فراخ دلی اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے اور پرامن سیاسی احتجاج پر مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے ۔

حالانکہ سندھ کے بعض حلقوں کے یہ خدشات ہیں کہ کراچی میں زیادہ بااختیار بلدیاتی اداروں کا مطلب کراچی کو انتظامی طور پر صوبے سے الگ کرنا ہے اور بااختیار بلدیاتی اداروں پر ایک لسانی گروہ کا کنٹرول شہر کی آبادی کے دیگر گروہوں کیلئے تشویش اور خطرات کا باعث ہوتا ہے ۔

 ان خدشات کی وجہ سے سندھ میں بلدیاتی اداروں کو بااختیار بنانے پر بعض حلقے مزاحمت کرتے تھے اور وہ پرویز مشرف کے دور کے لوکل گورنمنٹ آرڈی ننس 2002ء کو صرف کراچی کو انتظامی طور پر الگ کرنے کی کوشش تصور کرتے تھے ۔ ان خدشات کے باوجود پیپلز پارٹی کی حکومت اور قیادت نے ایس ایل جی اے 2013ء میں ترامیم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے ۔

 اسے قوم پرست حلقوں کی سیاسی مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، جو کہتے ہیں کہ سندھ میں دہرا بلدیاتی نظام رائج ہو جائے گا ۔ یعنی کراچی کیلئے الگ اور باقی سندھ کیلئے الگ ۔ کراچی کی سیاست کرنے والی سیاسی جماعتوں خصوصا حالیہ احتجاج کرنے والی سیاسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ ان خدشات کو دور کریں ۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کراچی کی آبادی کے مختلف گروہوں کا تناسب بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے ۔

پیپلز پارٹی کو امید ہے کہ وہ اب کراچی میں بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے ۔ اس لئے وہ ان ترامیم پر رضا مند ہوئی ۔ قوم پرست حلقے بھی شاید کراچی کی آبادی کے تناسب میں بڑی تبدیلی پر مطمئن ہیں اور غالباً ان کی حکومت ِسندھ کے خلاف سیاسی مزاحمت توقع کے مطابق نہ ہو۔

یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں آبادی کے مختلف گروہ آباد ہیں ۔ کراچی کسی ایک گروہ کا نہیں ہے ۔ اب کراچی کی پولیٹکل ڈائنا مکس (Dynamics ) بھی تبدیل ہو چکی ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کا بیانیہ ایسا نہیں ہے ، جو آبادی کے تمام گروہوں کو اپیل کرے ۔

اب کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں کراچی پر سیاسی قبضے کی جنگ پہلے سے زیادہ ہو گی لیکن میرے خیال میں اس سیاسی جماعت کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں ، جس کا سیاسی بیانیہ کراچی کی آبادی کے تمام گروہوں کےلئے قابل قبول ہو۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.