Sohail danish 4

سندھ کے درد کا علاج

سہیل دانش

فروری ۴۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ ۹۲نیوز  

جب سر کا درد ناقابل برداشت ہوگیا۔ بینائی کمزور ہوگئی۔ کانوں بجنے لگے اور سانس دھونکنی کی طرح چلنے لگی تو بچے بابا جی کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے مریض کا معائنہ کیا اور ساری رپورٹیں دیکھ کر نہایت دکھی انداز میں بولا۔ ”بابا جی کے سر میں ٹیومر ہے۔ اگر فوراً آپریشن نہ ہوا تو ان کے بچنے کا دس فیصد امکان ہے’ بصورت دیگر ہر گزرتا دن انہیں موت کے قریب لے جائے گا۔” بچوں نے فوراً بابا جی کو اٹھایا اور ہومیو پیتھی ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس نے ساری علامتیں سنیں اور پھر پر اعتماد لہجے میں بولا میرا خیال ہے ہم اس ٹیومر کو دوائوں سے غائب کرسکتے ہیں۔ آپ جرمنی سے دوائیں منگوالیں۔ بچوں نے بابا جی کو پھر اٹھایا اور ”تیلے حکیم” کے پاس لے گئے۔ حکیم نے مریض کی نبض پکڑی’ پتلیاں اٹھاکر آنکھیں دیکھیں’ علامتیں سنیں اور پھر اپنی کمزور گردن ہلاکر بولا۔ ”میرا خیال ہے’ بابا جی کو قبض ہے اگر یہ رفع ہوجائے تو سارے مرض دور ہوجائیں گے۔ اگر اجازت دیں تو جمال گھوٹہ دے دوں۔”بچوں نے بابا جی کو پھر اٹھایا اور سنیاسی کے پاس لے گئے۔ سنیاسی نے مریض کی جلد کا رنگ دیکھا۔ منہ کھلواکر ملاحظہ کیا۔ انگلی سے ریڑھ کی ہڈی پر دستک دی اور پھر بقراطی لہجے میں بولا ”جناب والا آپ اگر یہ جونک لگوالیں تو سارا مسئلہ ختم ہوجائے گا۔” بچوں نے پھر بابا جی کو اٹھایا اور گھر چل پڑے۔ جہاں انہیں دعائوں کے سہارے چھوڑ دیا۔ رات کو بابا جی نے چیخ ماری اور اچھل کود شروع کردی۔ سارے گھر میں بھگدڑ مچ گئی۔ سب اپنے اپنے لحاف چھوڑ کر بابا جی کے گرد جمع ہوگئے۔ بابا جی نے تالی بجائی اور اعلان کیا کہ میرے سر کا درد ختم ہوچکا ہے’ اب نظر بھی صاف آرہا ہے اور سنائی بھی ٹھیک دے رہا ہے۔ سانس بھی ہموار اور رواں ہے۔ میں بالکل صحت مند ہوں۔ بچوں نے حیرت سے پوچھا آخر یہ کیسے ہوا؟ بابا جی ہنس کر کہنے لگے۔ میں نے لیٹے لیٹے اپنے کالر پر ہاتھ پھیرا تو وہ مجھے ذرا تنگ سا محسوس ہوا۔ بس میں نے کالر کا بٹن کھول دیا اور سکھی ہوگیا۔ میرا خیال ہے آئندہ مجھے پندرہ کے بجائے سولہ سائز کا کالر پہننا چاہئے۔ جب میں سندھ کی صورتحال دیکھتا ہوں تو مجھے بابا جی یاد آجاتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی حال سندھ کے مسائل کا ہے۔ یہ صوبہ سالہا سال سے اپنے درد سے کراہ رہا ہے۔ اس کی بینائی اتنی کمزور ہوچکی ہے کہ سامنے پڑی چیز تک نظر نہیں آرہی۔ اس کے حکمران اس ڈاکٹر کی مانند ہیں جو ایکسرے’ ای سی جی’ سونو گرافی اور مختلف ٹیسٹ کرکے نئے نئے توجیہات اور تشریحات بیان کررہے ہیں۔ اس کی تمام سیاسی پارٹیاں جو اس صوبے کی اسٹیک ہولڈرز ہیں وہ سب ہومیو پیتھ’ حکیم اور سنیاسی کی طرح اپنی اپنی بقراطیت جھاڑ رہے ہیں۔ اقتصادیات ہو’ معاشرتی زندگی’ لسانی اور فرقہ وارانہ فیکٹر اس کا سر بھی کئی برسوں سے درد کر رہا ہے۔ اندیشوں اور خطرات کا شور اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب بانسری کی آواز بھی ٹرین کی چھک چھک محسوس ہوتی ہے۔ اب اس صوبے کی حالت دیکھیں۔ کراچی سے کشمور تک کا جائزہ لے لیں۔ راستے میں آپ کو حیدر آباد’ نوابشاہ’ سکھر ملیں گے۔ دوسرے روٹ سے جائیں تو دادو اورلاڑکانہ جیسے شہروں کی دہائی سنتے جائیں۔ ایک اور طرف نکل جائیں تو میرپورخاص اور تھر تک کی آہ و بکاہ سن لیں۔ ٹھٹھہ سے بدین تک کا ماتم دیکھ لیں۔ لیکن حکمران ہیں کہ اس کی تشخیص کے نئے نئے نسخے بتارہے ہیں۔ پی ٹی آئی’ ایم کیو ایم اور جی ڈی اے جیسی جماعتیں ہیں تو تیلے حکیم’ ہومیو پیتھ یا سنیاسی بابا کی طرح معالج بن کر داد رسائی میں نئے نئے نسخے لکھ رہے ہیں۔ کوئی آپریشن کا مشورہ دے رہا ہے’ کوئی مہنگی دوائیں اور جمال گھوٹہ دینے اور کوئی جونک لگوانے کا مشورہ دے رہا ہے۔ جی ہاں یہی کراچی تھا کبھی اچھے وقتوں میں یہ آگے بڑھ رہا تھا۔ حالات نے اسے کہاں سے کہاں پہنچادیا۔ 74 سال میں جسے دیکھو کراچی پر یلغار کررہا ہے۔ لیکن اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلئے کوئی تیار نہیں۔ اس کے دکھ کا مداوا کسی کو نظر نہیں آرہا۔ ہم کوئی نیا شہر بسانے کی تو دور کی بات’ حیدر آباد سمیت جو دوسرے چھوٹے بڑے شہر موجود تھے کم از کم انہیں بہتر کرلیتے۔ ہر وقت وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومت خزانہ خالی ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ملازمین کی تنخواہوں کیلئے پیسے نہیں رہے۔ کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہے۔ ہر ایک کو صرف اپنی تختی لگانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ وفاقی حکومت ڈینگیں مارتے تھک نہیں رہی۔ کاروباری طبقہ پریشان ہے۔ کیونکہ ٹیکسیشن نظام کے دفاتر تھانوں کی طرح آپریٹ کررہے ہیں۔ اپنی جیبیں گرم کررہے ہیں۔ یقین جانیں حکومت کے پلے 50 فیصد بھی نہیں آرہا۔ عام آدمی بس رو رہا ہے۔ ریلوے اور پی آئی اے جیسے ادارے سفید ہاتھی کی طرح پوری معیشت کو روند رہے ہیں۔ یوریا کیلئے کسانوں کو لائن میں لگنا پڑرہا ہے اور اس کے نرخ آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج ہچکولے کھارہا ہے۔ روپیہ آخری سانس لے رہا ہے۔ ریونیو کی جو اعداد و شمار حکومت بتارہی ہے اس کے سبب لوگوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ سندھ کی صورتحال دیکھیں۔ تعلیم اور صحت کا برا حال ہے۔ اس صوبے کے چھوٹے بڑے شہروں میں آپ گھوم پھر کر دیکھ لیں۔ وہ خستہ حالی ہے اسی طرح دھول اڑ رہی ہے۔ لوگ اسی طرح مفلوک الحال دکھائی دے رہے ہیں۔ پھر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا بھی حال ملاحظہ کیجئے۔ کوئی اسے اون کرنے کیلئے تیار نہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چل رہے ہیں۔ ایک ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ دھرنے ہورہے ہیں۔ وعدے ہورہے ہیں۔ پنجہ آزمائی ہورہی ہے۔ سندھ حکومت اختیارات پر اپنا تسلط جمانے کیلئے سب کچھ کر گزرنے کو تیار ہے۔ باقی تمام حکیم اور سنیاسی بابا اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں۔ اس صوبے کا مسئلہ میرٹ ہے۔ حکمرانوں کے ارادے اور نیت ہے۔ جو دوسری سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں بیٹھی ہیں یہ اپنا اپنا چورن بیچ رہی ہیں۔ یہ ڈاکٹر’ حکیم اور سنیاسی ہمارے سر درد’ بینائی’ سماعت اور سانس کا علاج نہیں کر سکتے۔ ہمیں اپنے کالر خود ہی کھولنے پڑیں گے۔ کیونکہ جو کچھ ہورہا ہے اور جو کچھ ہوچکا۔ یہ ہمارا علاج نہیں کرسکتے۔ یہ نئے نئے آپریشن تجویز کریں گے۔ کڑوی کسیلی گولیاں کھلائیں گے’ جمال گھوٹہ دیں گے یا پھر جونکیں لگاکر یہ توقع کریں گے کہ لوگ ان کیلئے تالیاں بجائیں۔ انہیں اپنا لیڈر مانیں۔ اگر ہم اپنی روش نہیں بدلیں گے تو یہ بھی اپنا طریقہ علاج نہیں بدلیں گے اور ہم روتے رہیں گے۔ حکومت کے ایک سابق وزیر خزانہ کا خیال ہے کہ وہ کراچی کو اس کا اختیار دلائیں گے۔ کراچی کو بے اختیار چلانے کا وقت چلا گیا۔ کوئی ان صاحب سے پوچھے کہ ساڑھے تین سال سے آپ نے کراچی کیلئے کیا کیا۔ جس گرین لائن کا تذکرہ آپ کررہے ہیں یہ تو 80 فیصد نواز شریف کے دور میں مکمل ہوچکا تھا۔ جن مسائل کی نشاندہی کی جارہی ہے یہ تو پہلے بھی تھے۔(جاری ہے)

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.