ہر باپ کی کہانی
ناصر بشیر
فروری ۳۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
یہ میری نہیں، ہر باپ کی کہانی ہے میرا بچپن غربت میں گزرا لیکن میں نے خود کو کبھی غریب محسوس نہیں کیا۔ تن
ڈھانپنے کو کپڑا مل جاتا تھا۔ کھانے کو روٹی میسر تھی، دو کمروں کا چھوٹا سا مکان تھا جس میں ہم سب بہن بھائی اپنے ماں باپ کے ساتھ ہنسی خوشی رہتے تھے۔ مہمان آ جاتے تو ہم میں سے کبھی کوئی ناک منہ نہیں چڑھاتا تھا۔ جو روکھی سوکھی ہم کھاتے تھے وہی مہمانوں کو کھلا دیتے تھے۔ مہمان زیادہ کی توقع بھی نہیں رکھتے تھے وہ اس بات پر خوش ہو جایا کرتے تھے کہ ہم سب ان کے آنے پر خوش ہوئے ہیں۔
آج موسم کا اشارہ ہے، کوئی آئے گا
گھر کا آنگن نہ سہی، دل ہی کشادہ کر لیں
ہم کبھی مہمانوں سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ وہ واپس کب جائیں گے؟ وہ اگرجانے کی بات کرتے بھی تو کسی نہ کسی بہانے انہیں روکنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ گلی محلے کے بچے ہمارے گھر آتے تو وہ بھی ہمارے ساتھ روکھی سوکھی کھا لیا کرتے تھے ہم کسی کے گھر چلے جاتے تو ہم بھی کبھی کچھ کھائے پیے بغیر واپس نہیں آتے تھے۔
میں اسکول جایا کرتا تھا پڑھنے لکھنے کا شوق تھا لیکن ’’کاروبار‘‘ کرنے کی لگن بھی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ دس بیس روپے خرچ کرکے آلو چنے کی چاٹ بناتا اور گلی میں بیٹھ جاتا بچے بھی کھاتے اور بڑے بھی، دس بیس روپے کا مال چالیس، پچاس روپے میں بک جاتا۔
ایک دن میں پچاس روپے لیکر سبزی منڈی چلا گیا سارے پیسوں کی میں نے امبیاں خریدیں اور اپنے محلے میں بیچنے کے لیے بیٹھ گیا۔ کھٹی امبیاں لڑکے اور لڑکیاں شوق سے کھاتے تھے۔ امبیاں بکنے لگیں، چونیوں اور اٹھنیوں کا ڈھیر لگ گیا۔ اچانک ایک اسکوٹر سوار شخص میرے پاس آکررکا۔اس نے ایک نظر امبیوں کے ڈھیر پر ڈالی پھر بولا ’’یہ ساری کتنے کی ہیں ‘‘ میں نے کہا ’’سو روپے کی ‘‘ بولا :یہ لو سو روپے اور یہ ساری امبیاں مجھے دے دو ‘‘سو روپے پاکر مجھے احساس ہوا کہ میں بہت امیر ہو گیا ہوں۔
میٹرک کا امتحان دیا تو والد صاحب نے مجھے ایک موٹر سائیکل کی ورک شاپ پر کام سیکھنے کے لیے بھیج دیا۔ رزلٹ آنے تک کام کرتا رہا۔ رزلٹ آیا تو میں میٹرک میں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہو گیا۔ ایک کالج میں خود ہی چلاگیا داخلہ فارم جمع کرا دیا تب کالج میں داخلے کے لیے ماں باپ پریشان نہیں ہوا کرتے تھے۔ انٹرکرلیا تو میرے والد صاحب نے مجھے ایک ٹیکسٹائل مل میں بھرتی کرادیا۔ مختلف شفٹوں میں کام کیا پانچ مہینے تک پندرہ سو ماہوار تنخواہ پائی۔
انٹر کا رزلٹ بھی ایسا تھا کہ شہر کے سب سے بہترین سرکاری کالج میں بی اے میں داخلہ مل گیا۔ پڑھنے اور پیسے کمانے کا مجھے چسکا لگ گیا تھا اس لیے پڑھائی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔چنانچہ میری جیب میں اپنے کلاس فیلوز سے زیادہ پیسے ہوتے تھے وہ یہی سمجھتے تھے کہ میں شاید کسی امیر گھرانے کا چشم وچراغ ہوں۔ ایم اے اردو میں داخلہ لیا تو ساتھ ہی ایک اخبار میں سب ایڈیٹر کی ملازمت مل گئی۔
ایم اے کی ڈگری ملنے کے کچھ عرصے کے بعد گریڈ سترہ کی نوکری مل گئی۔ سب سے پہلے میں نے اپنے نام اور عہدے کی مہر بنوائی کہ لوگوں کے کاغذات کی تصدیق کیا کروں گا۔ کاغذات کی فوٹو کاپیوں پر مہر لگانے کے بعد جب میں دستخط کرتا تو مجھے بہت مزہ آتا تھا۔
نوکری ملی تو میری شادی بھی ہو گئی مکان گھر بن گیا۔چار بچے ہو گئے دوبیٹے، دو بیٹیاں، چاروں بچے اب ماشا اللّٰہ خاصے بڑے ہو گئے ہیں۔ بڑی بیٹی شہر کے بہترین کالج میں چار سالہ بی اے آنرز کی طالبہ ہے۔ دونوں بیٹے الگ الگ سرکاری کالجوں میں پڑھ رہے ہیں سب سے چھوٹی بیٹی ایک اسکول میں نویں جماعت کی طالبہ ہے۔
میرے سارے بچے پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھے ہیں۔جہاں سرکاری اسکولوں کی نسبت فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔جس زمانے میں، میں ایک سرکاری پرائمری اسکول میں پڑھتا تھا اس کے سامنے ایک بہت خوبصورت سا پرائیویٹ کنڈرگارٹن اسکول تھا میں اس سکول کو روز حسرت سے دیکھا کرتا تھا۔
اس اسکول کا یونیفارم بہت عمدہ تھا۔ بچوں کے ماں باپ انہیں موٹر سائیکل پر اسکول چھوڑ کر جاتے تھے۔ میں اپنا بستہ سر پر رکھ کر پیدل ہی اپنے اسکول جایا کرتا تھا۔ اپنی شخصیت کی یہ کمی میں نے یوں پوری کی کہ اپنے چاروں بچوں کو پرائیویٹ اسکول میں پڑھایا۔ان کے لنچ بکس میں ہر روز سینڈوچ، کیک، چپس اور جوس کا ڈبہ رکھواتا۔ہر روز انہیں خود اسکول چھوڑ کر آتا اور چھٹی کے وقت لیکر آتا اب لڑکے موٹر سائیکل پر کالج جاتے ہیں اور بیٹیوں کو میں کار میں کالج اور اسکول چھوڑنے جاتا ہوں۔ میں خود آج بھی صبح باسی روٹی کا پراٹھا چائے سے کھاتا ہوں لیکن بچوں کو مناسب جیب خرچ دیتا ہوں تاکہ وہ کالج یاا سکول کی ٹک شاپ سے بہترین ناشتہ کر سکیں۔
میں باتھ روم میں ان کے لیے بہترین صابن، شیمپو، ٹوٹھ پیسٹ اور مہنگا مائوتھ واش رکھواتا ہوں۔ اور میں خود ان کے بچے کھچے صابن کے ٹکڑوں سے نہا لیتا ہوں۔ جس ٹوٹھ پیسٹ کو بچے خالی سمجھ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں، میں سخت محنت کرکے اس میں سے کچھ پیسٹ نکالتا ہوں اور دانت صاف کرتا ہوں۔
میں جب چھوٹا تھا تو مجھے صرف عید کے موقع پر نیا سوٹ ملا کرتا تھا لیکن میرے بچے ہر پندرہ بیس دنوں کے بعد نیا سوٹ خریدتے ہیں۔
سال کےسال ملاکرتی تھی پوشاک نئی
ہم پہن کر جسے اتراتے پھرا کرتے تھے
میری ان ساری مصروفیات کا حاصل یہ ہے کہ باپ وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی خواہشات کو مار کر اپنے بچوں کی ساری خواہشات پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہی بچے ایک دن باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں ’’آپ نے ہمارے لیے کیا، کیا ہے‘‘؟ بچوں کو اس سوال کا جواب تب ملے گا جب وہ بھی صاحبِ اولاد ہو جائیں گے۔