منافع خوروں، ٹھیکیداروں کے سامنے ریاست بے
بس
محمود شام
جنوری ۳۰۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جن
آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے دل ملانے کا دن۔ ہمارے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اپنے موبائل پر بہت کچھ دیکھتے سنتے ہیں۔ ان کے ذہن میں کتنے ہی پھول اور کانٹے اگتے ہیں۔ یہ ہمارا چمن ہیں۔ ہم اس کے مالی۔ ہمارا فرض ہے کہ پھولوں کو کانٹوں سے محفوظ کریں۔ یہ ہماری روایت بھی ہے اور دینی فریضہ بھی۔ مجھے توان کے سوالات سن کر بہت مزا آتا ہے۔ میں ان سے ریکوڈک کا ذکر کرتا ہوں۔ جہاں سونا اور تانبا ہمارا انتظار کررہے ہیں۔ ہماری چھوٹی پوتی کے اسکول میں ریکوڈک کا ذکر چھڑا تو ہماری پوتی اپنی کلاس میں سب سے زیادہ با خبر نکلی۔ ٹیچر نے اسے شاباش دی۔ مجھے یہ سن کر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کتنی مسرت ہوئی ہوگی۔ آپ بھی ایسے خوشگوار تجربات سے گزرے ہوں گے۔ یہ Future Residents ہیں۔ ان کو اب اس دنیا کے سرد و گرم کا مقابلہ کرنا ہے۔ ہم نے اپنے لیے نہیں ان کے لیے پاکستان کو جنت بنانا ہے۔ آپ کو ان سب سے کتنا پیار ہے۔ آپ تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ انہیں کوئی اذیت پہنچے۔ صرف سوچیں نہیں۔ ان کے لیے قدم بھی اٹھائیں۔
وزیر خزانہ نے کہا تو بڑے یقین سے ہے کہ آئندہ تین ماہ مہنگائی اور بڑھے گی۔ مگر غربت کی لکیر سے نیچے، چھ سات کروڑ پھر مڈل کلاس، چھوٹے تنخواہ دار جو اکثریت میں ہیں، وہ گزارا کیسے کریں گے؟ بڑی بے نیازی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ دوسرے ملکوں میں بھی اشیائے ضروریہ مہنگی ہورہی ہیں۔ کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ ان ملکوں میں بنیادی مسائل طے ہوچکے ہیں۔ ان کے بلدیاتی ادارے با اختیار ہیں۔ انہیں آسان آرام دہ ٹرانسپورٹ میسر ہے۔ ان کی گلیوں سڑکوں پر کچرا نہیں پڑا رہتا۔ ان کے نالوں میں دھماکے نہیں ہوتے۔ان کے کلرک افسر جائز کاموں کے لیے رشوت نہیں مانگتے۔ ان کی عدالتوں میں انصاف مہنگا اور تاخیر سے نہیں ملتا۔ وہاں بلدیاتی اداروں کو با اختیار بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو28دن دھرنے نہیں دینے پڑتے۔ وہاں احتجاج کرنے والوں پر لاٹھیاں اور آنسو گیس نہیں برسائی جاتی۔
پاکستان میں عوام ان سب مصائب تلے پہلے ہی دبے ہوئے ہیں۔ اوپر سے روز مرہ کی انتہائی ضروری اشیا کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے۔ دوسرے ملکوں میں قیمتوں پر کنٹرول کا ایک مستحکم نظام موجود ہے۔ دکاندار آڑھتی اپنی مرضی سے قیمت نہیں بڑھاتے۔ وہاں منافع تین چار سو فی صد نہیں ہے۔ مختلف علاقوں اور شہروں میں قیمتیں مختلف نہیں ہوتیں۔
ہمیں پوری ہمدردی ہے۔ وزیر اعظم سے کہ ان آٹھ دس دن میں انہیں بہت صدمے برداشت کرنے پڑے ہیں۔ احتساب کے بزر جمہر شہزاد اکبر کو ہٹانا پڑا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن میں اضافے کی رپورٹ جاری کردی۔ عدالتِ عالیہ نے راوی شہر کا منصوبہ قانون کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔ جہاں مستحکم جمہوریتیں ہوتی ہیں وہاں ایسی رپورٹوں پر حکومتیں مستعفی ہوجاتی ہیں۔ عوام کو موقع دیتی ہیں کہ وہ دوبارہ اپنے نمائندے منتخب کریں۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ حکمران پوری طرح رُسوا ہوکر ہی رخصت ہوتے ہیں۔
یہ تماشا ہم کئی دہائیوں سے دیکھتے آرہے ہیں کہ کچھ خوشامدی کہہ رہے ہوتے ہیں، ہمارا وزیر اعظم اس ملک کے لیے آخری امید ہے۔ دوسری طرف اپوزیشن لیڈروں کے خوشامدی کہہ رہے ہوتے ہیں، وزیراعظم اور پاکستان ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ تقدیر ہنس رہی ہوتی ہے۔ کتنی آخری امیدیں اپنی آخری آرام گاہوں میں ابدی نیند سورہی ہیں اور ملک ماشاء اللہ پھر بھی چل رہا ہے۔ اور جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتا۔ آج ہم ان کے دَور کو مثالی کہہ رہے ہیں۔ شخصیتیں آنی جانی ہوتی ہیں ان کے رہنے نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک سسٹم ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے جس میں کمزور حکمران آئے یا طاقت ور، سسٹم اگر مستحکم ہے تو وہ حکمران کو ان اصولوں کے مطابق کام کرنے دیتا ہے۔ ہماری تاریخ یہی ہے کہ اپوزیشن ہر حکمران کو روز اوّل سے ہٹانے میںمصروف رہتی ہے۔ اسے ملک کے لیے سیکورٹی رسک قرار دیتی ہے۔ حکمران اپوزیشن کو وطن دشمن قرار دینا اپنا منصب خیال کرتے ہیں۔ سسٹم بنانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھتا۔
دُکھ ہوتا ہے کہ اس وقت خود کفالت حکومت کی لغت میں شامل ہے نہ اپوزیشن کی۔ ملک وسائل سے مالا مال ہے۔ ان وسائل کی بات عمران خان کرتے ہیں نہ وفاقی وزیر نہ شہباز شریف۔ نہ بلاول بھٹو زرداری۔ نہ مولانا فضل الرحمٰن۔ آئی ایم ایف کی غلامی کی زنجیریں کوئی نہیں توڑنا چاہتا۔ ہر وزیر خزانہ کی کامیابی ناکامی کا معیار یہ ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے میں سرخروہورہا ہے یا نہیں۔
وزیر خزانہ آئندہ تین مہینے مہنگائی بڑھنے کی خبر سنارہے ہیں۔قیمتیں کم کرنے کی بات نہیں کی جارہی۔ یہ کہا جارہا ہے کہ ہم عوام کی آمدنی میں اضافہ کرنے کی خوشخبری سنائیں گے۔ یعنی ہم مہنگائی کے سامنے بے بس ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں، ٹھیکیداروں اور آڑھتیوں کی من مانی کے خلاف ناکہ بندی نہیں کرسکتے کیونکہ وہ سب Electable انتخابیے ہیں۔ پارلیمنٹ میں ان کی اکثریت ہے۔ قیمتیں ایک سطح پر رکھنے کے لیے راشن بندی کی جاتی ہے۔ ذخیرہ اندوزی ختم کرنے کے لیے چھاپے مارے جاتے ہیں۔ سستے بازار شروع کیے گئے۔ وہاں بھی یہی منافع خور غالب آگئے ہیں۔ اجارہ داریاں بڑھ رہی ہیں۔ اڑھائی کروڑ کے شہر کراچی میں صرف ایک سبزی منڈی ہے۔ وہاں سے 25روپے میں چلنے والی چیز محلوں، علاقوں کے بازار تک پہنچتے پہنچتے 100 روپے کی ہوجاتی ہے۔ آپ کیا زیادہ سبزی منڈیاں نہیں بناسکتے؟ اسی طرح دوسری ضروری اشیا پر اجارہ داری ختم کرنے کے لیے مختلف علاقوں میں کھیتوں سے سامان براہِ راست نہیں پہنچایا جاسکتا؟ آپ کیسے محافظ ہیں۔ منصف ہیں۔ حاکم ہیں کہ جن کی حفاظت، جن کی کفالت کا ذمہ لے رہے ہیں، ان کو مارکیٹ کی بے لگام قوتوں کے حوالے کرکے کہہ رہے ہیں کہ کچھ مہینے اور مہنگائی رہے گی۔ اپوزیشن کے ایم این اے ایم پی اے کو اگر ووٹرز کی پریشانی پر تشویش ہو تو وہ اپنے اپنے حلقے میں سستے بازاروں کا اہتمام اپنی نگرانی میں کریں۔
شرح نمو 5.57بتائی جارہی ہے۔ برآمدات 31ارب ڈالر اور یہ دعویٰ کہ گزشتہ تین سال میں اسٹیٹ بینک سے کوئی قرضہ نہیں لیا۔ دوسرے ملکوں سے آئی ایم ایف سے جو قرضے لیے ہیں وہ کیا بوجھ نہیں ہیں؟ معیشت کتنی ہی ترقی کررہی ہو، اعداد و شُمار بڑے خوش نما ہوتے ہیں لیکن اکثریت کے گھروں میں اگر چولہا نہیں جل رہا تو معیشت بے سود ہے اور حکمرانی بے فیض۔