ایک اعتراف
عبدءلغفور قیصارانی
جنوری ۲۷۔۔۔۲۰۲۲
روزنامہ جنگ
خواتین و حضرات! تھوڑا سا عار محسوس کرتے ہوئے آج ببا نگِ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم (تحریر میں جہاں جہاں ‘ہم ہے اسے ‘میں پڑھا جائے )ایک ناکام آدمی ہیں۔ اب ہم پر یہ واضح ہو چکا کہ ہم کسی بھی شعبۂ زندگی میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ سچ پوچھیں، واضح تو یہ کافی عرصہ پہلے ہو چکا تھا مگر مارے شرمندگی کے کبھی اعتراف نہ کرسکے۔ مگر اب اخفائے راز کا احساسِ ندامت شرمندگی پر حاوی ہو چکا ہے۔
یادش بخیر ، لگ بھگ د ودہائیاں قبل ہم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے یا دوسرے لفظوں میں بھولا کینٹین کے مالک اور ویٹرز کو روتا دھوتا چھوڑ کرنکلے (مالک اپنے بقایاجات کے لیے اور ویٹرز کھانے کے بل میں دو ڈشز کم کرنے کےعوض ملنے والی’’معقول ‘‘ ٹپ کے کھونے پر ) تو سوچا اب کچھ پڑھنا چاہیے۔
اتفاق سے انہی دنوں ہماری ملاقات ایک سستے قسم کے نوواردموٹیویشنل اسپیکر سے ہوگئی۔ یہ ملاقات باہمی دلچسپی ، بلکہ یوں کہیے کہ باہمی مفاد کی بنیاد پر ہوئی۔ نوواردا سپیکر کو تختہ مشق بنانے کے لیے کوئی سامع چاہیے تھا اور ہمیں کوئی ایسا شخص جو ہماری چھپی ہوئی صلاحیتیں ہم پر آشکار کرسکے۔ لہٰذا دو دیوانوں کے ملنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم مقابلے کے امتحان کی تیاری کے لیے نکل پڑے اب مسئلہ یہ آن پڑا کہ راہنمائی کے لیے ہمیں سینئرز کی ضرورت تھی۔ پتہ کرنے پر معلوم ہواکہ یونیورسٹی کے قریب گھوڑے شاہ دربار کے پاس اپنی ہی یونیورسٹی کے کچھ سابقہ طالب علم امتحان کی تیاری کے لیے قیام پذیر ہیں۔ شام کو ہم ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے۔ یہ دو کمروں کا چھوٹا سا مکان تھا اور کمروں کے آگے چھوٹا ساصحن۔ جونہی ہم مرکزی دروازے سے مکان میں داخل ہوئےہماری نظر صحن میں کھڑے ایک شخص پر پڑی جو تولیہ لپیٹے اپنا ستر ڈھانپنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ ایک شخص صحن میں کرسی نما چیز پر بیٹھا اخبار میں ضرورتِ رشتہ کے اشتہار دیکھ رہا تھا۔ ہماری آمد کی اطلاع پاکر سب کمرے میں جمع ہوگے۔ یہ کل ملا کے دس لڑکے تھے جودوکمروں میں رہائش پذیر تھےاور سونے کے وقت ٹارچ کے خشک سیلوں کی ترتیب پر پورے ہوسکتے تھے( یعنی ایک کی ٹانگیں دوسرے کے منہ پر ) تقریباً آدھوں کے آدھے بال اڑچکے تھے اور باقی آدھوں کے آدھے بال سفید۔ ایسا لگا شاید کچھ تو سی ایس ایس میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ہم نے بیٹھے بیٹھے حساب لگایا کہ اگر یہ مناسب وقت پر شادی کر لیتے تو آج ان کے بچے اسی امتحان کی تیاری کر رہے ہوتے۔ خیر ہم نے اپنا مدعا بیان کیا جس پر کچھ نے ہمیں ایسے گھورا جیسے کہہ رہے ہوں ’’نواں آیاں ہیں سوہنیاں‘‘۔ اس کے بعد سب نے تفصیل سے ہمارے خدوخال کا جائزہ لیا بلکہ یوں سمجھ لیں ٹھونک بجا کے ہمیں چیک کیا اور فیصلہ دیا کہ ہم یہ امتحان پاس نہیں کر سکتے۔ یہاں سے مایوس ہو کر ہم ایک ایسے دوست کے پاس پہنچے جس کےبڑے بھائی نے حال ہی میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ آنے کا مقصد بتایا۔ دوست نے چھوٹتے ہی کہا شکل دیکھی ہے اپنی؟ بات تو شاید درست تھی مگریہ ’’اعترافِ جرم‘‘ کا موقع نہ تھا۔ فیصلہ سنایا ہم یہ امتحان پاس نہیں کر سکتے۔ اپنے بھائی کے اوصاف حمیدہ گنوائے اور ہمارے اوصاف کبیدہ۔ کہنے لگے آپ کا سی ایس ایس والا انداز ہی نہیں ہے۔ بھائی جب پانی پیتے تو پہلے گلاس بھر کر میز پر رکھ دیتے۔ پھر اُٹھا کر بغور اُس کو دیکھتے، پھر چند گھونٹ پی کر رکھ دیتے۔ اس طرح وہ گلاس ختم کرتے۔ تم ایک ہی سانس میں پورا گلاس غڑپ کر لیتے ہو۔ بھائی سارا دن ٹریک سوٹ میں پھرتے ہیں اور تمھارا اوڑھنا بچھونا شلوار قمیض ہے۔ بھائی ڈنر رات کو دو بجے کرتے ہیں اورتم مغرب کی اذان کے ساتھ ہی۔ غرض پانی پینے سے لیکر نہانے دھونے تک ہمارا کوئی کام ڈھنگ کا نہ نکلا۔ لہٰذاامتحان کی تیاری کے لیے نا اہل قرار پائے۔
آخر مایوس ہو کر کھیتی باڑی کا فیصلہ کیا اور گاؤں پہنچ کر گھر والوں کو اپنا فیصلہ سنایا۔ پھر وہی جملہ سننے کو ملا کہ کھیتی باڑی کرنے والے تم جیسے نہیں ہوتے ۔ خیر ضد کر کے ہم نے یہ شعبہ منتخب کر لیا۔ پھر اتفاق سے ہم سے ایک احمقانہ بلکہ مسخرانہ حرکت سر زد ہو گئی۔اب آپ سے کیا پردہ، بتا ہی دیتے ہیں۔ ایک دن گھر والوں نے کہا کہ جانوروں کی حویلی میں کھلا ہوا کٹا باندھ دیں۔ چونکہ اُس وقت ہم Attention To Details کے بارے تھوڑا لا پروا تھے۔ لہٰذا ہم نے کٹے کی بجائے کٹی باندھ دی۔ وہ ایک کٹا کیا کھلا رہ گیا کہ آج تک روز ایک نیا کٹا کھلتا آ رہا ہے۔یوں کھیتی باڑی کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔پھر ایک دن اچانک ہم نے فیصلہ سنایا کہ ہم پولیس افسر بنیں گے۔ہمارے ایک بزرگ نے کہا برخوردار، پولیس افسر ایسے نہیں ہوتے۔ کہنے لگے کافی عرصہ پہلے گاؤں میں ایک تھانیدار آیا تھا۔ بڑی مونچھیں اور بڑھا ہوا پیٹ۔ کیا رعب تھا۔ گاؤں والے سب کھیتوں میں چھپ گئے۔ تھانیدار نے سب سے پہلےرکھے ہوئے ایک پانی کے مٹکے کو ٹھوکر مار کے توڑا پھردو چارپائیاں الٹ دیں۔ کہتے ایک دفعہ میں مقامی تھانہ میں بوٹا تھانیدار کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ گاؤں کا ایک بزرگ اسے ملنے آیا۔بوٹا صاحب اٹھ کر ملے اور کام بھی کر دیا۔ کم بخت نے رات کو گاؤں میں بتایا کہ تھانیدار تو بالکل فارغ ہے،مجھے بھی اٹھ کر ملا۔ اس کے بعد بوٹا نے خوش اخلاقی سے توبہ کر لی۔ ہم نے فیصلہ کیا گھڑے توڑنےاور چارپائیاں الٹانے کا کام ہم سے نہیں ہو سکے گا۔
حال ہی میں ہم پر یہ منکشف ہوا ہے کہ ہم ایک کامیاب ادیب بن سکتے ہیں لہٰذا ہم نے رہنمائی کے لیے ایک سستے قسم کے ادیب سے رابطہ کیا۔ انہوں نے ہمارے خدوخال کا بغور جائزہ لیا اورکچھ سوالات ہمارے سامنے رکھے۔ خدوخال کے جائزے اور سوالات کے جوابات کی روشنی میں انہوں نے فیصلہ سنایا کہ ہم ادیب نہیں بن سکتے۔الغرض ہم نے مولوی بننے سے لیکر سیاستدان بننے تک ہر شعبہ میں گھسنے کی کوشش کی مگر کسی بھی شعبہ کی مطلوبہ شرائط پر پورا نہ اُتر سکے۔ یقین جانیے اب ہم تھک چکے اور آج ہم خود مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ ہم ایک ناکام آدمی ہیں۔