دو آرزو میں، دو انتظار میں
حسن نثار
جنوری 24۔۔۔2022
روزنامہ جن
بیزاری طاری ہے جسے بے حسی، لاتعلقی، اکتاہٹ، مایوسی، چڑچڑاہٹ میں سے کچھ بھی سمجھ لیں یا ان سب کا مکسچر، ملغوبہ کہہ لیں۔ جس پروفیشن کو اپنانے کے لئے گھر بار تک چھوڑ دیا تھا، اب اسے چھوڑ دینے کو جی چاہتا ہے اور اس خواہش میں شدت آتی جا رہی ہے حالانکہ اس پروفیشن میں ریٹائرمنٹ کا رواج اور فیشن نہیں۔ جب تک ہوش و حواس اور ہاتھ کام کرتے ہیں ……… ’’لگے رہو منا بھائی‘‘ بلکہ پڑے پڑے سینئر سےسینئر تر اور پھر ترین ہوتے چلے جائو حالانکہ ’’سینئر‘‘ ہمارے ہاں صرف وہ ہوتے ہیں جنہیں جوانی میں موت نہ آئے ورنہ زندگی بھر چند ابتدائی سالوں کا تجربہ ہی ری پیٹ کئے چلے جاتے ہیں۔ مسلسل تین دن تقریباً بیڈروم تک ہی محدود رہا۔ سوتا رہا، اونگھتا رہا یا سوچتا رہا کہ قلم، کلام، کتاب والا کمبل مجھے نہ چھوڑے تو میں اسے کیسے چھوڑوں؟ ’’کٹ ٹو کٹ‘‘ تکنیک پر عمل کروں یا دھیرے دھیرے بتدریج فیڈ آئوٹ ہونے کو ترجیح دوں؟ کنفیوژن کا شکار ہوں کہ یہ بھی ہمارا قومی ورثہ اور رویہ ہے لیکن کب تک؟ آج نہیں تو کل، اپنی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ بزرگوں سے بھی یہی سنتے آئے ہیں کہ بھلا وہی جو بھریا میلہ چھوڑ جائے۔
برسوں لکھ لکھ اور بول بول کے دیکھ لیا۔ جو ہوا بد سے بدتر ہوا تو بھائی! اب چپ سادھ کے بھی دیکھ لیتے ہیں کہ شاید یہی حربہ کام آجائے اور ستیاناسی سے سوا ستیاناسی تک کے سفر کی رفتار میں ہی کچھ کمی آ جائے۔ اس پہ بھی بہت سوچا کہ میں یہ سب کچھ کیوں سوچ رہا ہوں بلکہ کر گزرنا چاہتا ہوں تو اساتذہ میں سے کسی ایک کا جھنجھوڑ کے رکھ دینے والا یہ ڈرائونا شعر یاد آیا؎
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
یعنی ’’ترتیب‘‘ ہی زندگی اور بے ترتیبی، بدترتیبی موت ہے اور اگر یہ سچ ہے جو کہ ازلی ابدی سچ ہے تو ماحول، معاشرے کو اسی ناقابلِ تردید سچائی کی روشنی میں دیکھنا ہوگا اور اگر ہم ایسا کریں تو کروڑوں کے اس ملک میں وہ کون سا شعبہ ٔ حیات ہے جس میں حیات یعنی ’’ترتیب‘‘ کی مکمل تباہی دکھائی نہ دیتی ہو؟ کوئی ایک شے جو مرتب ہو؟ کہیں کوئی نظم و ضبط، قانون قاعدہ، اصول، ڈسپلن تو کیا، زندگی کی ان علامتوں کی دھول تک بھی دکھائی نہیں دیتی۔
کمال ہے، جلال و جمال کا یا بدترین زوال کا، ایک طرف ہمارا وزیراعظم اتنا طاقتور ہے کہ حکومت سے باہر زیادہ خطرناک ہونے کی بات کر رہا ہے تو دوسری طرف اسے یہ بھی کہنا پڑتا ہے’’ عدلیہ ملک پر رحم کرے شہباز شریف کے کیسز کی روزانہ سماعت کی جائے‘‘ اور اس سے بھی کہیں بڑھ کر یہ کہ ………. ’’میڈیا تنقید کرے پروپیگنڈا نہیں‘‘ تو میں بزکشی کے اس کھیل سے ریٹائر ہوتے ہوئے یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ میڈیا جو کچھ کر رہا ہے وہ تنقید ہے یا پروپیگنڈا؟
ایک بات طے ہے کہ میڈیا اپنی تمام تر طاقت اور جادوگری کے باوجود ’’محدود‘‘ ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا متحد ہو کر بھوکوں کے سامنے یہ ’’پروپیگنڈا‘‘ کرے کہ ان کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں تو کیا بھوکے مان جائیں گے؟ یا دنیا بھر کا میڈیا متحد ہو کر پیٹ بھروں کو یہ بتانا شروع کر دے کہ تمہیں دو دن کے فاقوں کا سامنا ہے تو کیا بھوک سے ان کے معدوں میں مروڑ اٹھنے لگیں گے؟ میڈیا نمک مرچ میں کمی بیشی کر سکتا ہے جیسے سیاست میں نجاست یا شرافت کی کمی بیشی ہو سکتی ہے لیکن اس سے زیادہ کچھ نہیں لیکن جوہری بات پھر وہی کہ کوئی شے اپنی جگہ موجود نہیں، کوئی ایکٹر اپنے کردار کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا۔ ’’کفر پہ قائم معاشرہ تو زندہ رہ سکتا ہے ظلم پہ قائم معاشرہ نہیں‘‘ تو یاد رہے کہ کسی کو چھری، چاقو، خنجر، گولی مارنا ظلم نہیں۔ میں اگر سونے کی ایش ٹرے میں پانی پیوں یا مٹی کے پیالے میں سگریٹ بجھائوں تو میرا شمار ’’ظالموں‘‘ میں ہو گا یعنی بات پھر وہیں جا پہنچی۔
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا
’’ترتیب‘‘ تباہی سے دو چار
’’اجزا‘‘ پریشان
آج کے دن مرنے والے 95فیصد لوگوں کو یقیناً یہ یقین ہو گا کہ وہ ایک دن اور جی لیں گے۔ Lillian Dickson نے کہا تھا…
“Your Life is Like A Coin. You Can Spend It Any Way You Wish, But You Can Spend It Only Once.”
میں ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی مزید مرضی کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ دیکھنا یہ ہے کہ جو لکھ لکھ، بول بول نہ دیکھ سکے،
چپ سادھ لینے کے بعد وہ ترتیب، تمیز، تہذیب نصیب ہوتی ہے یا وہی بات کہ….
’’دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں‘‘
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)