ایک خوفناک سوال
منصور آفاق
جنوری ۲۳۔۔۔۲۰۲۲
روزنامہ جنگ
چین کے عظیم رہنما مائوزے تنگ نے ایک مختصر سی کہانی لکھی تھی کہ ایک چینی مزدور نے اپنے مختصر سے کنبے کے لیے ایک کوٹھا بنایا۔ کوٹھے کے مغرب کی طرف گھنا جنگل تھا۔ اس لیے اُس نے کوٹھے کا دروازہ مشرق کی طرف کھولا۔ کوٹھے کے آگے چھوٹا سا صحن تھا۔ اب مصیبت یہ پیش آئی کہ مشرق کی طرف چٹان تھی جو دھوپ رو ک لیتی تھی۔ بیوی نے پوچھا کہ اب کیا کرو گے؟ چینی مزدور نے کہا اس چٹان کو یہاں نہیں ہونا چاہیے، میں اسے یہاں سے ہٹا دوں گا۔ بیوی بچے ہنس کر چپ ہو گئے مگر وہ دُھن کا پکا تھا۔ اُس نے چٹان کو کھودنا شروع کیا، دن رات میں جتنا وقت بھی ملتا بڑی مستعدی سے پتھر توڑتا پھر اس کام میں بیوی بچے بھی شریک ہونے لگے۔ مشقت ہوتی رہی اور آخر ایک دن ایسا آیا کہ اُس کے کوٹھے کے دروازے اور سورج کے درمیان حائل ہونے والی چٹان نیست و نابود ہوگئی۔ یہ تو ایک کہانی تھی لیکن گراں خواب افیونی چینی قوم کو آزاد، خود مختار، بیدار مغز اور مستحکم قوم بنانے میں مائو اور اُس کے انقلابی ساتھیوں نے بھی طویل مشقت اور جدوجہد کی اور بالاخر مائو نے اپنی بیان کردہ کہانی سچ کر دکھائی۔ چین کی تاریخ پڑھنے والا ہر شخص کل اور آج کے چین کو دیکھتا ہے تو حیرت اور استعجاب سے تصویر بن جاتا ہے۔ فی الواقع اللہ تعالیٰ نے انسان کو بےپناہ قوتوں سے نوازا ہے۔ اُس نے سمندر پھاڑے، پہاڑوں کے جگر چیر کر نہریں اور سٹرکیں بنائیں، چاند پر اپنی تسخیر کے پرچم گاڑ آیا، فضائوں اور خلائوں کو فتح کیا، فطرت کے بےپناہ اور بےاماں موانعات کو اپنی راہ میں سے ہٹایا اور آج اس قابل ہوگیا کہ اقبال کے الفاظ میں خدائے ذو الجلال کے سامنے فخر سے سر بلند کرکے کہہ رہا ہے۔ خدایا فرشتوں کو تونے اِنیِ اَ عْلَمُ مالاَ تعْلَمُوْن کہہ کر، تخلیقِ آدم کے جو معارف سمجھا دیے تھے، میں نے اُن کی لاج رکھ لی ہے۔
ایک طوفاں خیز دریا اپنی طغیانیوں اور روانیوں میں سب کچھ بہائے لیے جاتا ہے، اچانک ایک تنکا گرتا ہے اور دریا کی حشر سامانیوں سے الجھنے لگتا ہے۔ وہ اعلان کرتا ہے کہ دریا کے تند و تیز دھارے کا رُخ موڑ دے گا۔ اُسے اپنے بہائو کو بالکل اُلٹ سمت میں بدلنا ہوگا اُسے پیچھے کی طرف چلنا ہوگا اور دنیا حیرت سے تکنے لگتی ہے اور پھر تاریخ یہ معجز ہ دیکھ لیتی ہے کہ دریا کی ساری موجیں اُس تنکے کے اشاروں پر اپنا رُخ بدل لیتی ہیں، دھارے پیچھے کی طرف، اپنی مخالف سمت میں بہنے لگتے ہیں۔ یہ جو کچھ میں نے لکھا کوئی شاعری نہیں، کوئی افسانہ نہیں، دیوتائوں کی مفروضہ وادیوں کا قصہ نہیں، انسان بڑا ہے، اس کی رفعتوں کے آگے سب کچھ پست ہے۔ بلندیاں اس کے قدموں کے بوسے لیتی ہیں۔ اس کی عظمتوں کی ساری کائنات تعریف کرتی ہے۔ یہ اشرف المخلو ق ہے، یہ سب کچھ ہے، یہ معظم ہے، محترم ہے، مکرّم ہے۔ خدا نے اسے مکرم ٹھہرا دیا، اس لیے تمام مخلوق کو، تمام کائناتی قوتوں کو اس کا احترام کرنا چاہیے، اس کی تکریم میں سرفگندہ ہونا چاہیے۔ کائنات میں اس کا ورود اپنی سلطنت میں سلطان کا ورود ہے۔ زمین اپنے دفینے کھول کر اس کے قدموں پر لٹا رہی ہے، سمندر اپنے خزانے اگل رہا ہے، پہاڑ اس کی ٹھوکروں میں ہیں۔ یہ سب کچھ کر سکتا ہے۔ روشنی اس کی جیب میں ہے، توانائیاں اس کی مٹھی میں ہیں، اسے کوئی بھی زیر نہیں کر سکتا بشرطیکہ یہ بیدار ہو، شعور سے آشنا ہو، خود کو اپنے پر منکشف کر دے، اپنے آپ کو پہچان لے۔
بلاشبہ کائنات میں ایسے آدمیوں کی کمی نہیں جنہوں نے اپنی اولوالعزمی سے ایسے ایسے کارنامے کر دکھائے جنہیں آج بھی ہمتیں ناممکنات شمار کرتی ہیں اور جولانیاں محال دیکھ کر مُنہ موڑ لیتی ہیں۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایسے صاحبانِ عزم و ہمت پیدا ہونے کیوں بند ہو گئے ہیں۔ ہم کیوں روز بروز زوال کے طرف ہی رواں دواں ہیں۔ یہ وہ سوال ہے جس پر من حیث القوم ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)