زوال پذیر معاشرہ
روئف حسن
جنوری 15۔۔۔2022
روزناہ جنگ
کچھ تبدیلیاں ایسی ہوتی ہیں جو سست روی کے ساتھ آشکار ہوتی ہیں جبکہ بعض برق رفتاری کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں۔ معاشروں کا زوال ایک ایسا منفی رحجان ہے جس کا تعلق ان دونوں عوامل سے ہے۔ معاشرتی بگاڑ پیدا کرنے والے عناصر تو اپنے کئے پر شادیانے بجا رہے ہوتے ہیں لیکن جو طبقات اس رحجان سے متاثر ہوں ان کے لئے نہ تو اس کی وسعت کو سمجھنا آسان ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی مزاحمت کے لئے کوئی تدبیر کرنا۔
معاشرے کے زوال کی وجوہات کا اندازہ مختلف پہلوئوں سے لگایا جا سکتا ہے لیکن جس چیز نے سب سے زیادہ بگاڑپیدا کیا وہ انصاف کی عدم فراہمی ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ انصاف کی فراہمی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ انصاف کا نظام اپنی موجودہ حالت میں نچلی ترین سطح کو چھو چکا ہے جس سے عام تاثر یہ ابھرا ہے کہ پاکستان میں انصاف کے دو نظام ہیں ۔ایک امیر اور طاقتور طبقہ کیلئے اور دوسرا غریب عوام کیلئے۔ اسی وجہ سے ریاست کے بارے میں منفی تاثرات بھی قائم ہوئے ہیں۔
بدحال عدالتی نظام کی وجوہات تلاش کریں تو کتاب لکھنے کے لئے مواد میسر آ جائے گا لیکن انصاف کی فراہمی کو کبھی ریاست کا ایک اہم ستون نہیں سمجھا گیا جس کی وجہ شاید ملکی آئین کی تشکیل اور قانون کی حکمرانی کے نفاذ میں غیرمعمولی تاخیر ہو۔ اس دوران ملک کے حاکم کو ہی ملک کا قانون سمجھا جاتا تھا۔ ماسوائے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے والوں کے احتساب کا کوئی باقاعدہ نظام رائج نہ ہو سکا اور اس تاثر نے تقویت پکڑی کہ ریاست اور عوام کی تقدیر بدلنے کے ذمہ دار ادارے نہیں بلکہ افراد ہیں۔اس روش نے ایک ایسے حکمران طبقے کو جنم دیا جو قانون کی بالادستی سے آگاہ نہیں تھا ۔
اسی رویے نے ملک میں آمریت اور آمرانہ سوچ کو پروان چڑھایا۔ اگرچہ اس طرز حکمرانی کے باعث کئی دردناک راہیں کھلیں لیکن نتیجتاً ایک ایسے طبقے نے جنم لیا جو ہمیشہ سے ہی طاقت کا سرچشمہ چلا آ رہا ہے۔ ایک طرف ایسے طبقے نے آمریت کو پھلنے پھولنے کا بھرپور جواز فراہم کیا اور دوسری طرف اپنا وجود برقرار رکھنے کیلئے سازشوں میں بھی مصروف رہا۔ اس طبقے نے قانون وانصاف کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ان کے مفادات کا تحفظ کیا۔ بھٹو/زرداری اور شریف خاندانوں کی زیرکفالت کئی ذیلی خاندان بھی ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے آمریت کی پرورش کا فائدہ اٹھایا۔اپنی اجارہ داری برقرار رکھنے کیلئے شریف خاندان نے 80ء کی دہائی میں پیسہ کلچر متعارف کرایا جس نے خاندانی جاگیرداروں کو طاقتور مافیاز میں تبدیل کر دیا۔ آگے چل کر اسی طبقے نے مزید ترقی کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے اور انصاف اور قانون کی حکمرانی کو پائوں تلے روندتے ہوئے پورے نظام کو ہائی جیک کیا اور سویلین آمریت کی آبیاری میں بھرپور کردار ادا کیا۔
اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے انہوں نے کرپٹ بیورو کریسی کی تشکیل کی، پولیس میں جرائم پیشہ افراد کو بھرتی کیا ، مشکوک اسناد اور کردار والے افراد کے ذریعے اداروں کو تباہ کیا ، رشوت اور غنڈہ گردی کے ذریعے انصاف خریدا ، انتخابات میں مرضی کے نتائج حاصل کئے اور بھاری معاوضے کے بدلے طاقت پر براجمان طبقے کے مفادات کو آگے بڑھایا۔ عوامی فلاح وبہبود کبھی ان کی ترجیحات میں شامل نہیں تھی۔ اس بدترین طرز حکمرانی نے شفافیت ،احتساب ،آئین کی بالادستی اور انصاف کے نظام کو مکمل مفلوج کر دیا۔ نتیجتاً بدکردار لوگوں نے پورے نظام کو اپنے تابع کر لیا اور ایک مہذب اور قانون کی پاسداری کرنے والے شہری کیلئے راستے محدود کر دیئے گئے۔ سازشی عناصر اور مجرمانہ طریقوں سے امور چلانے والوں کے طرز عمل نے ریاستی عملداری کو اپاہج کر دیا جس کی بدولت مفاد پرست اشرافیہ مضبوط ہوتی گئی اور ادارے تنزلی کا شکار ہونے لگے۔کسی کو پیسوں کا لالچ دے کر اور کسی کو پسماندہ رکھنے کی دھمکیاں دے کر اپنے تابع کیا۔ کئی دہائیوں پر محیط اس نظام نے مفاد پرست عناصر کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا اور ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر رکھ دیا۔
انہی عوامل سے معاشرہ زوال پذیر ہوتا ہے جہاں ہر شخص ایسے طریقے اور ذرائع استعمال کرتا ہے جو ذاتی سطح پر مناسب سمجھے جاتے ہیں ۔ بنیادی طورپر عوام کو انصاف سے محروم رکھنے والا معاشرہ ایسے ہی افراد نے ہائی جیک کیاہوتا ہے۔ زوال پذیری کا یہ ماحول تیزی کے ساتھ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ کسی بھی عمل کو نئے خطوط پر ڈھالنا ایک مشکل کام ہوتا ہے بالخصوص ایسے لوگوں کو جوابدہ بنانا جو قانون اور قاعدے کے مطابق زندگی گزارنے کے عادی نہ ہو ں، گزشتہ تین برسوں سے انہی لوگوں نے شور مچایا ہوا ہے جنہیں قانون کے تابع اور جوابدہ بنانے کے لئے کوشش کی جا رہی ہے۔ اس امر میں سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے جاری کوششوں کے بارے میں لوگوں میں احساس کا فقدان ہے۔ اس میں عدلیہ کے ساتھ ساتھ میڈیا کا بھی بڑا کردار ہے۔ عوام کو سچائی بتانے کے بجائے سابق حکمرانوں کے جرائم کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کی جانب سے کی گئی مخلصانہ کوششوں کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔
شریف اور بھٹو/زرداری خاندانوں کی سرپرستی میں پھلنے پھولنے والے بدعنوانی کے کلچر اور اس وجہ سے زوال پذیری کی حال ہی میں دو مثالیں سامنے آئی ہیں ۔ایک الیکشن کمیشن کی جانب سے ایک مفرور شخص (اسحق ڈار) کی سینٹ کی رکنیت کی بحالی جبکہ دوسری مثال مری میں پیش آنے والے سانحہ کے دوران مقامی اداروں اور لوگوں کی جانب سے انتہائی بے حسی کے اظہار کے واقعات۔
بے پناہ چیلنجز کے باوجود بوسیدہ نظام کے خاتمے اور ملک کو مافیاز کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے بلاخوف وخطر کی جانے والی کوششیں جاری رہنی چاہئیں۔ کیونکہ اسی میں ہی ملک و قوم کی بھلائی ہے۔