سندھ پنجاب آبی تنازع کی تاریخ
جی این مغل
نوری 14۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے بارے میں سندھ اور پنجاب کا تنازع پاکستان بننے کے بعد شروع نہیں ہوا، یہ تنازع تو انگریز حکومت کے دور میں بھی موجود تھا۔
پاکستان اور ہندوستان کے آزاد ممالک بننے سے پہلے مارچ 1947 میں سندھ کے انگریز گورنر کے سیکرٹری ایس ایچ رضا نے گورنر کی ہدایت کے تحت اس ایشو پر دہلی کے انگریز گورنر جنرل کو ایک تفصیلی خط لکھا، جس میں پنجاب کے غلط رویے کی کئی مثالیں دیں۔
اس طرح اس خط کو دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کے بارے میں سندھ پنجاب تنازع کی تاریخ کا ایک اہم چیپٹر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ اس خط کا عنوان Sindh Punjab Indus Dispute تھا،اس خط کو سندھ کی طرف سے 10 اور 19 اکتوبر 1942 کو لکھے گئے لیٹر نمبر 3183-1 کا تسلسل کہا گیا ہے۔
اس خط کے ذریعے سندھ کے گورنر کے سیکرٹری ایس ایچ رضا نے نئی ہلی کے انگریز گورنر جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’سر‘‘ مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ آپ سے گزارش کروں کہ ہزمیجسٹی نے کونسل میں جو احکامات جاری کئے ان کو اس تنازع کے حوالے سے حل کیا جائے اور جب تک یہ احکامات جاری کئے جائیں تب تک سندھ کی شکایات جو انڈس کمیشن (رائو کمیشن) کا موضوع ہے ان کے بارے میں ہونے والی کسی بھی قسم کی پیشرفت کو روکا جائے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ جو مذاکرات دونوں حکومتوں کے درمیان جاری ہیں وہ کمیشن کی ان تجاویز کی روشنی میں شروع ہوئے کہ اس تنازع کا بہترین حل دونوں حکومتوں کے درمیان باہمی معاہدہ ہی ہوگا۔
اپریل 1943 میں سندھ کے چیف انجینئر مسٹر ہاویز (Mr. Hawez) اور پنجاب کے چیف انجینئر مسٹر مونٹاگو (Mr. Montague) کے درمیان یہ مذاکرات شروع ہوئے۔ طویل مذاکرات اور اہم نکات پر دونوں طرف سے مفاہمت کے تحت ٹیکنیکل ایشو پر 18 ماہ کے بعد سندھ کے مسٹر گرانٹ اور پنجاب کے بہادر کھوسلہ کے درمیان غیر سرکاری معاہدہ ہوا۔
بہرحال اس ایشو کا مزید جائزہ لینے پر پتہ چلا کہ پنجاب کے دوسرے چیف انجینئر کچھ نکات پر مطمئن نہیں تھے لہٰذا مسٹر میشرس اور پروتھیرو (Protheroe) کے درمیان مزید مذاکرات ہوئے اور 28 ستمبر 1945 کو لے دیکر معاہدہ کے خاکے (اضافی شق 1) پر دونوں حکومتوں کی طرف سے دستخط کئے گئے اور بعد میں پنجاب حکومت نے 13 اکتوبر 1945 کو اس شرط پر خاکے کو سرکاری طور پر منظور کیا کہ اس ایشو سے منسلک مالی معاملے کا بھی اطمینان بخش حل ہوگا۔
اس سلسلے میں جو لیٹر جاری کیا گیا اس میں کچھ شرائط شامل تھیں اور کہا گیا کہ پنجاب ان شرائط کے تحت بعد کے نکات پر اتفاق کرنے کے لئے تیار ہوگا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں پنجاب نے کہا کہ چھ ماہ کے لئے کونسل میں ہزمیجسٹی یہ معاملہ ملتوی کرے تاکہ اس عرصے کے دوران مالی معاہدہ ہوجائے مگر ہز ایکسیلنسی وائسرائے نے اس ایشو کو اس وجہ سے ملتوی کرنے سے انکار کردیا کہ اس کے نتیجے میں دونوں صوبوں میں تعمیراتی کام میں تاخیر ہوئی اور تجویز دی کہ اس معاہدے میں یہ شق شامل کی جائے کہ مالی معاملات والے ایشو پر ثالثی سے فیصلہ کیا جائے۔
سندھ نے اس بیان سے مکمل طور پر اتفاق کیا جو 7 نومبر کو گورنر کے سیکرٹری نے ڈی او نمبر 1001 کے ذریعے دیا تھا جہاں تک مالی معاملات کے ایشو کا تعلق ہے تو سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا انتہائی اہم ہے کہ ’’ڈرافٹ ایگریمنٹ‘‘ کی کلاز 15 اور 18 کے تحت پانی کی فراہمی میں کوئی تبدیلی نہیں کرنی پھر چاہے مالی معاملات والے ایشو پر کوئی معاہدہ بھی نہ ہو لہٰذا اس معاملے کو ثالثی کے ذریعے نمٹانا ہوگا۔
اس کے بعد اس ایشو پر مسٹر (Halford) ہیلفورڈ سندھ کے سیکرٹری مالیات اور مسٹر فوائے (Mr Foy) چیف انجینئر پنجاب کے درمیان خط و کتابت جاری ہوگئی۔
سندھ کے نقطہ نگاہ سے اس خط و کتابت کا مقصد محض وضاحت کرنا تھااور باقی معمولی تبدیلیاں اور روایتوں سے ہٹ کر محض پیداوار پر توجہ دینے کا اہتمام کرنا تھا تاکہ ایک متفقہ حل نکل آئے مگر نظر یہ آرہا ہے کہ شروع سے پنجاب پانی کی مقدار کے تعین والے ایشو کو طے کرنے میں دلچسپی لے رہا تھا، ساتھ ہی وہ مالی معاملات والے ایشو پر غور کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔
(جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)