پُرامن و خوشحال جنوبی ایشیا
افضال ریھان
جنوری 6۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
’’انسٹیٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز‘‘ کے زیر اہتمام پچھلے دِنوں اسلام آباد میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس کا موضوع تھا ’’پُرامن و خوشحال جنوبی ایشیا‘‘۔ ہمارے میڈیا نے یہاں زیر بحث آنے والے خیالات، نظریات اور تجاویز کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی اور نہ ہی افتتاحی اجلاس میں پیش کردہ فرمودات کا جائزہ لیا جو ایسے شخص کی طرف سے پیش کیے گئے ہیں جو بدقسمتی سے اِس وقت ریاست کی اہم ترین ذمہ داری ادا کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی ایک شخصیت نے کہا تھا کہ اِس دنیا میں ملک نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں۔ اِس تناظر میں انہوں نے بھارت اور کشمیر کے حوالے سے اپنی اسٹرٹیجی میں تبدیلیوں کا نکتہ بھی اٹھایا تھا مگر مابعد یوں محسوس ہوا کہ انہوں نے اتنی بڑی بات جیسے تبرکاً کہی تھی، ورنہ قومی پالیسی سازی بالخصوص خارجہ امور میں انہیں جو حیثیت حاصل ہے اور بطور ادارہ انہیں ہمیشہ سے جو دسترس حاصل رہی ہے اس کے پیش نظر انہیں آگے بڑھ کر زیادہ اعتماد کے ساتھ اس کجی کی درستی کروانی چاہیے تھے۔ رہ گئی ہماری موجودہ کمزور ترین سیاسی حکومت، کون نہیں جانتا کہ یہ بیچاری خود جن بیساکھیوں پر کھڑی ہے اب وہ بیساکھیاں بھی ہولے ہولے کھسک رہی ہیں۔ بلاشبہ خارجہ پالیسی میں اس نوع کی بڑی اسٹرٹیجک تبدیلی کا بھاری اقدام عوامی مینڈیٹ رکھنے والی ایک پُراعتماد حکومت کو ہی اٹھانا چاہیے مگر ایسی حکومت کیلئے بھی یہ بھاری پتھر اٹھانا تب تک ممکن نہیں جب تک طاقتور حلقے اِس کی پشت پناہی نہ کریں یا کم از کم اس کی مخالفت سے الگ نہ ہو جائیں، اس کا عملی تلخ تجربہ تین مرتبہ منتخب ہونے والی ن لیگی حکومت کر چکی ہے۔ پاکستان کی انڈیا کے حوالے سے روایتی اسٹرٹیجی میں تبدیلی کا خوبصورت ترین لمحہ اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا تھا، جب بی جے پی حکومت کا پاپولر ترین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی خود چل کر آپ کے پاس لاہور آیا تھا اور مینار پاکستان کے نیچے کھڑے ہو کر کہہ رہا تھا کہ ہمارے سینے میں اگرچہ بٹوارے کا گھائو ہے لیکن ہم ان تلخیوں کو بھولتے ہوئے امن، ترقی اور خوشحالی کے نئے سبھائو کا آغاز کرنا چاہتے ہیںمگر افسوس یہ سلسلہ یہیں رُک گیا اور پھر جب پاکستان کا پاپولر ترین وزیراعظم، بھارتی وزیراعظم مودی کی جیت کے حوالے سے سارک ممالک کی قیادتوں کے دوش بدوش تقریب میں شریک ہوا تو اس موقع پر بداعتمادی کی تمام تر تلخیوں کو ختم کرتے ہوئے ایک نئی سوچ کا آغاز ہو سکتا تھا مگر یہاں اسی دو تہائی اکثریت کا بھاری مینڈیٹ رکھنے والی پاپولر شخصیت کے خلاف وہ طوفان بدتمیزی اٹھایا گیا کہ الامان والحفیظ۔ اور آج عالمی طاقت کے صدر سے شکایت ہے کہ وہ تو مجھے ایک فون کال تک نہیں کرتا یعنی ہماری ناعاقبت اندیش پالیسیوں اور قیادت کی نااہلی نے آج ہمیں عالمی تنہائی کی کھائی میں لا پھینکا ہے۔ مایوسی کی یہ حالت ہے کہ آج بڑی ذمہ داری پر براجمان شخص یہ امید اور دعا کرتا پایا جا رہا ہے کہ کاش بھارت میں کوئی ایسی حکومت آ جائے جس کے ساتھ بیٹھ کر ہم خطے کے حالات اور باہمی تعلقات پر بات ہی کر سکیں کیونکہ میں نے بھارت کے ساتھ بات چیت کی پوری کوشش کی ہے۔ بھارت میں آر ایس ایس کا نظریہ رکھنے والی حکومت ہے، اِس لیے مشکل ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کوئی بات چیت کرے۔ یاد رہے کہ یہ الفاظ اُس شخص کے ہیں جس نے انڈین انتخابات کے موقع پر مودی کی جیت کیلئے دعائیں مانگی تھیں اس سے ہماری سیاسی پختگی اور عالمی امور میں تدبر کا اندازہ و ادراک کیا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب ہمالیہ جتنے بلند بانگ دعوے ہیں کہ کبھی چین امریکا کشیدگی ختم کروانے کھڑے ہو جاتے ہیں، کبھی سعودی ایران تنائو کو سلجھاتے پائے جاتے ہیں، کبھی افغانستان کی تعمیر نو کیلئے پوری دنیا کے سامنے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔ اندرونی حالت یہ ہے کہ عوام غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں بلک رہے ہیں، کہیں گیس نہیں آ رہی، کہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے۔ پچھلوں کے ترقیاتی منصوبوں پر تختیاں لگاتے ہوئے فیتے کاٹ رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا جیسے اپنے قلعہ اور گڑھ میں عوام وہ درگت بنا رہے ہیں کہ ہر روز نئے سے نئے جواز گھڑ رہے ہیں مگر بات بنائے نہیں بن رہی۔ ایسے میں نظر اٹھاتے ہیں تو سامنے حضرت مولانا مسکراتے دکھائی دیتے ہیں۔ دعویٰ یہ ہے کہ سارک ممالک اور ان کے حالات پر بھی مجھے ملکہ حاصل ہے۔ افغانستان کے اندرونی خلفشار کو بھی میرے سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ حقانی افغانوں کا ایک قبیلہ ہے۔ پختون اگر بچیوں کو تعلیم نہیں دلواتے تو یہ بھی ان کا کلچر ہے جس کا پوری دنیا کو احترام کرنا چاہیے اور سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا سرد جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے، بلاکس بن رہے ہیں لیکن ہم اس کا حصہ نہیں بنیں گے بلکہ ایسا ہونے ہی نہیں دیں گے، امریکا کو سمجھنا چاہیے جو بائیڈن کو عقل سے کام لینا چاہیے۔ بھلے مانسو! کسے معلوم نہیں کہ ’’پُرامن و خوشحال جنوبی ایشیا‘‘ کا بنیادی تقاضا کیا ہے؟ آپ اگرپاکستان کی ترقی و سلامتی کا داعیہ رکھتے ہیں تو پھر اس کا راستہ ’’پُرامن و خوشحال جنوبی ایشیا‘‘ کے بیچوں بیچ ہے، ہم آگے بڑھ کر دنیا کے تمام بڑے مذاہب سے اپنائیت، محبت اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیں، تمام سارک ممالک کے باشندوں سے اپنے قدیمی تہذیبی تعلق کو جوڑیں اور خطے کے ان تمام قابلِ قدر و احترام ممالک سے اپنے سیاسی، سفارتی، مذہبی، تہذیبی، تاریخی اور بالخصوص تجارتی تعلقات کو اس قدر بہتر استوار کریں جیسے یورپی ممالک نے یورپی یونین کی صورت اختیار کر رکھے ہیں۔ ویزے کا خاتمہ ہی نہ کریں، مشترکہ کرنسی اور بھرپور تجارتی سہولتوں تک کو فروغ دیں اور اسے سنٹرل ایشیا سے جوڑ دیں، یہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر نہ صرف پاکستان بلکہ پورا جنوبی ایشیا امن و خوشحالی کی منازل طے کر سکتا ہے۔