ہم اتنے تنگ نظر کیوں ہیں؟
منصور آفاقی
جنوری 2۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
علامہ اقبال کو بے شک نوبل پرائز نہیں دیا گیا۔ اس بات کا صرف ہمیں نہیں نوبل پرائز دینے والوں کو بھی دکھ ہے۔سویڈن کی نوبل پرائز کمیٹی کے ایک رُکن نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت تک علامہ اقبال کی شاعری کے انگریزی میں اچھے تراجم نہیں کئے گئے تھے، اس کے مقابلے میں ٹیگور کا ترجمہ نگار کمال کا مصنف بھی تھا۔ویسے علامہ اقبال کو نوبل پرائز ملتا تو یہ نوبل پرائز کےلیے بھی اعزاز ہوتا۔
گزشتہ روز اسی حوالے سے عقیل عباس جعفری کا ایک مضمون نظر سے گزرا اور میں حیران رہ گیا کہ صرف لاہور شہر کے پاس پانچ نوبل پرائز موجود ہیں جن میں سے دو کا تعلق گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی سے ہے جن میں ایک ڈاکٹر ہرگوبند کھرانہ ہیں اور دوسرے ڈاکٹر عبدالسلام۔ ایک کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے ہے، ان کا نام آرتھرہولی کومپٹن تھا جو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری سے منسلک تھے مگر ہم ان کا نام تک نہیں جانتے صرف اس لیے کہ وہ مسلمان نہیں تھے۔ ہمیں اپنی اتنی زیادہ تنگ نظری پر غور کرنا ہوگا۔ جہاں تک نوبل پرائز لینے والی مسلمان شخصیات کا تعلق ہے تو ان کی فہرست بھی خاصی طویل ہے۔ جن مسلمانوں کو امن کا نوبل پرائز ملا ان میں انور سادات، یاسر عرفات، شیریں عبادی، محمد البرادعی، محمد یونس، توکل کرمان اور ملالہ یوسف زئی شامل ہیں۔
ادب کا نوبل پرائز نجیب محفوظ اور اور خان پا موک کو مل چکا ہے۔ سائنس میں احمد زیول لے چکے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ نوبل پرائز دینے والی کمیٹی مسلمانوں کے حوالے سے بہت زیادہ متعصب واقع ہوئی ہے۔ پھر وہ لوگ جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک طویل حصہ لاہور میں گزارا ہے اور نوبل پرائز لیا وہ لوگ لاہور کےلیے کیوں اعزاز نہیں ہیں؟ رڈیارڈ کپلنگ کو 1907 میں ادب کا نوبل پرائز ملا تھا وہ بمبئی میں پیدا ہوئےمگران کی زندگی کا سب سے طویل حصہ لاہور میں گزرا۔ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ وہ ان کے والد کے بڑے اچھے دوست تھے۔ وہ لاہور میں ایک اخبار کے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے۔ سبرا مینین چندر شیکھر جنہیں طبیعیات کے شعبے میں نوبل انعام ملا، وہ بھی 19 اکتوبر 1910 کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ایشیا میں شاید ہی لاہور جیسا کوئی اور شہر ہو جس کے حصے میں پانچ نوبل پرائز آ چکے ہوں۔
مجھے نوبل پرائز دینے والوں پر کچھ تحفظات ضرور رہے ہیں۔ میں نے بہت عرصہ پہلے لکھا تھا۔
نوبل پرائز کااجرا 1901 میں سویڈن کے ایک باردو بنانے والے سرمایہ دار الفریڈ نوبیل کے وصیت نامے سے ہوا اور علمِ طبیعیات، علمِ کیمیا، علم الابدان، ادب اور امن کے حوالے سے گراں قدر خدمات سر انجام دینے والوں کو نوبل پرائز دینے کا آغاز ہوا۔ ادب کے نوبل پرائز کا فیصلہ نوبل اکیڈمی کرتی ہے۔ ان فیصلوں پرکوئی اثرانداز نہیں ہو سکتا اورفیصلے کرنے والے قطعاً متعصب نہیں ہوتے البتہ ان کا جغرافیہ شاید کچھ کمزور ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ انہیں خبر ہی نہیں کہ یورپ اور امریکا کے علاوہ بھی کوئی دنیا آبادہے۔ پھر یورپ اور امریکا میں رہنے والوں میں ہر بڑا ادیب اس کا حقدار نہیں ہو سکتا اس کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ فکری اعتبار سے فیصلہ کرنے والوں کے قریب تر ہو۔ پچھلے ایک سوسال سے دنیا دیکھ رہی ہے کہ امریکیوں سے زیادہ ’’انسان دوست‘‘ اور کون ہے؟جاپانی تو خاص طور پر ان کی انسانیت نوازی کے معترف ہیں۔ایٹم بم وغیرہ تو گرتے ہی رہتے ہیں۔
دنیا کو سب سے زیادہ حیرت 1970 میں ہوئی تھی جب سوویت یونین کے ادیب الیگزینڈر سالزے نتسن (Alexander Solzhenitsyn) کویہ انعام دیا گیا تھا۔اس کی تحریروں میں روسی سماج کے خلاف جارحانہ پن مغرب کے فیصلہ سازوں میں مقبولیت سے محروم کیسے رہ سکتا تھا۔ کہتے ہیں کہ سارتر نے ان ہی مصلحت پوشیوں کی وجہ سے نوبل پرائز قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یوں تو امریکہ کے بے شمار ادیبوں کو نوبل پرائز مِل چکا ہے مگر وجودیت پسند امریکی ناو ل نگار سال بیلو کو 1976جب یہ انعام دیا گیا تو کچھ لوگوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہودیت نے ‘سال بیلو کو نوبل پرائز دلا دیا۔ اِس ذو معنی جملے کا مفہوم دراصل یہ ہے کہ سال بیلو ایک ایسا یہودی قلمکار تھاجس کی تحریریں مشرقی یورپ کے عقوبت کدوں میں اس زندگی کی عکاس ہیں جو یہودیت نے من حیث القوم گزاری ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ نوبل پرائز اپنے ایک سو سال مکمل کرنے پر سات سو افراد کو مل چکا اوران میں ایک سو ستائیس افراد یہودی ہیں فزکس میں 37یہودیوں کویہ ایوارڈ ملا، کیمسٹری میں 21یہودیوں نے حاصل کیا، میڈیسن اور فزیالوجی میں 39 یہودی النسل افراد اس کے حقدار ٹھہرائے گئے ادب میں 10انعام یہودیوں کو ملے اکنامکس میں ان کی تعداد تیرہ ہے اور امن کے شعبہ میں سات ہے۔یوں تقریباً نوبل پرائز کے بیس فیصد حصے پر یہودیوں کا قبضہ دکھائی دیتا ہے (یہ بات یاد رکھیے کہ یہودی دنیا کی کل آبادی کے ایک فیصد کا چوبیسواں حصہ ہیں)۔
ادب میں جن یہودی ادیبوں نے انعام حاصل کیا تو ایک اور عجیب انکشاف یہ ہوتا ہے کہ زیادہ تر لکھنے والوں کا بنیادی موضوع وہی ”یہودیت پر ظلم“ ہے جو ‘سال بیلوکا ہے، پھر اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ ‘سال بیلو سے ایک سال بعد یعنی 1978میں پھر یہ ایوارڈ ایک امریکی ادیب آئزک بشیوز سنگر کو ملا، وہ بھی نہ صرف یہودی النسل تھا بلکہ اس کی بھی اہم ترین کہانیوں کا بنیادی موضوع یہودیت پرمشرقی یورپ میں ہونے والے مظالم تھے۔)ان سب باتوں کے باوجود کسی حد تک یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہم مسلمانوں نے گزشتہ صدی میں کون سا تیر مارا ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)