واویلے کا موسم
رئوف حسن
جنوری 1۔۔۔2022
روزنامہ جنگ
یہ ان تمام لوگوں کے واویلے کا موسم ہے جو اپنے سیاسی کیریئر کو ڈگمگاتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ تمام سیاستدان اس طرح کے سلوک کے عادی نہیں تھے، انہیں اس بات کا یقین نہیں آرہا کہ ان کے ساتھ ماضی کے برعکس اس طر ح کا سلوک ہو رہا ہے اور انہیں اب ان کے روایتی محسنوں کے ذریعے بچایا نہیں جا رہا۔
ہر روزطاقتور حلقوں سے معاہدے کے بارے میں بے سروپا افواہیں گھڑی جاتی ہے۔ شریف ہوں یا بھٹو/زرداری، عملی طور پر اس رعایت کے سوالینظر آتے ہیں جس کو کبھی وہ اپنا استحقاق سمجھتے تھے۔ شریف کیمپ ان خبروں سے گونج رہا ہے کہ ان کا لیڈر اپنے حریفوں سے معاملات طے کر کے واپس آ رہا ہے جب کہ زرداری شور مچا رہے ہیں کہ ملک میں حالات ٹھیک کرنے کے لیے ان سے مدد مانگی گئی ہے۔
نواز شریف کے گرد دو حوالوں سے گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ برطانوی حکومت نے ان کے ویزے میں مزید توسیع کرنے سے انکار کر دیا ہے اور عدالت کے سامنے ان کی اپیل بھی جلد مسترد ہوجانے کا امکان ہے۔ بیماری اور اس کے نتیجے میں لندن فرار ہونے کا معاملہ ہو، یا پھر علاج کا بہانہ، وہ بڑی دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے رہےہیں۔ جب ان کی اپیل خارج کردی جاتی ہے، تو ان کے پاس اپنی موجودہ حیثیت کے ساتھ برطانیہ میں قیام کے لیے کوئی قانونی ذریعہ دستیاب نہیں ہوگا۔ آپشنز میں سیاسی پناہ حاصل کرنا شامل ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کریں گے، یا وہ کسی دوسرے ملک میں شفٹ ہو جائیں جو اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہو، یا پھر اپنی قیدکی مدت پوری کرنے کے لیے ان کوپاکستان واپس آ نا ہوگا۔
دوسری طرف رانا شمیم کا حربہ ایک دھوکہ ہی نکلا۔ انہوں نے پہلےعدالت میں داخل شدہ حلف نامے کی صداقت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، حقیقی حلف نامے کی مہر بند کاپی کے مندرجات کو دیکھنے کے بعدعدالتی بنچ نے 7 جنوری کو ان پر اور عدلیہ کی توہین میں ملوث دیگر افراد پر فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے نے ان شریفوں کی بازی پلٹ دی ہے جنہوں نے عدالتوں کو دبائو میں لانے کے لئے یہ کھیل کھیلا تا کہ زیرالتوا مقدمات میں ریلیف حاصل کیا جاسکے۔
زرداری محاذ پر پی پی کی سندھ میں حکومت صوبے میں کرپشن اور ناقص کارکردگی کے باعث بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے تحت بتدریج کمزور ہو رہی ہے یہاں تک کہ دیہی علاقوںمیں بھی جو عام طور پر اس کا مضبوط گڑھ سمجھے جاتے ہیں اپنی حمایت کھورہی ہے۔ ہر روز عدالتوں میں ایسے کیس آتے ہیں جہاں اس کے رہنمائوں کی سرزنش ایک معمول ہے۔ اس کے باوجود ان کے رہنمایہ کہتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے کہ نامعلوم لوگوں نے ملک میں معاملات درست کرنے کے لیے ان سے مدد مانگی ہے، اور یہ کہ انہوں نے اس کے لیے موجودہ حکومت کو معزول کرنے کی شرط رکھی ہے۔ وہ اس حقیقت سے مکمل طور پر لاعلم ہیں کہ زمانہ ایک بڑی تبدیلی سے گزر چکا ہے اور اب شاید ان کرپٹ لیڈرز کے لیے زیادہ ہمدردی باقی نہیں رہی۔ لیکن ان کی ممکنہ سیاسی موت سے ا یسے کئی لوگ متاثر ہوں گے جو ماضی میں ان سے بہت مال ودولت وصول کرتے رہے ہیںاور جومستقبل میں بھی ملکی خزانے کواپنے لئے رواں رکھنا چاہتے ہیں، اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ سیاسی طور پر ان بے چین سیاستدانوں کو اب مصنوعی طور پر صرف ٹیلی وژن کی اسکرینوں اور اخبارات کے صفحات پر زندہ رکھا جا رہا ہے۔ لہٰذا ایک طرف تو ان کی بدعنوانی کی داستانیں تواتر کے ساتھ چھاپی جا رہی ہیں دوسری جانب ایسے لوگ جن کی اقتدار میں شمولیت اور بقا ظالم ترین آمروں کی سرپرستی کی مرہونِ منت تھی، جمہوریت کے کٹر اور پرجوش چیمپئن کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔
تاہم ان کی سزا اور سیاسی میدان سے باہر ہونے سے جرائم اور بدعنوانی سے جڑی لعنت ختم ہونے والی نہیں ہے۔ معاشرے کو ان بے شمار آلودگیوں سے پاک کرنے کے لیے ایک طویل جدوجہد کا آغاز کرنا ہو گا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے بہترین ارادے، ترقی پسند، عملی، دانشمندانہ اور موثر پالیسیوں کے نفاذ، شفاف، جوابدہ اور فعال اداروں کی ایک لڑی کی ضرورت ہوگی جو عزم اور لگن کے ساتھ مختلف محاذوں پر کام کرے۔ ہمیںفاصلوں کو سوچے سمجھے اقدامات سے طے کرنا ہو گا جس سے پاکستان میں موجود تمام برائیوں کو نشانہ بنایا جاسکے۔ یہ ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن ایک ایسا چیلنج جس کا فوری اور سنجیدگی سے مقابلہ کرنا ہوگا ۔
جو پاکستان آج ہمارے پاس ہے وہ اس تصور کے مطابق بالکل نہیں جس کا قائد نے 11 اگست 1947 کو اظہار کیا تھا: ایک لبرل، ترقی پسند، روشن خیال اور روادار ملک۔ اس کی بجائے ہم نے اسے ایک رجعت پسند اور متعصب ملک میں تبدیل کر دیا ہے۔ لیکن پاکستان کو آگے بڑھناہے کیونکہ اس کے بغیر نجات کا کوئی راستہ نہیں۔