’’اس قوم کی کبھی کوئی مشکل خرید لو‘‘
حسن ںیثار
دسمبر 31 2021
روزنامہ جنگ
رستے پہ عمر کی مرا پائوں پھسل گیا
اک اور سال پھر مرے ہاتھوں نکل گیا
اپنی سالگرہ اور ہر نئے سال پر مجھے اپنا ہی یہ شعر یاد آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ سال کیا، یہاں تو جانے کیا کیا کچھ ہاتھوں سے نکل اور پھسل گیا۔ میں کیا، ہر پاکستانی کی زندگی سنسنی سے بھرپور ہے۔ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہےکہ گیا سال زیادہ سنسنی خیز تھا، حال زیادہ سنسنی خیز ہے کہ آئندہ سال زیادہ سنسنی خیز ہو گا۔ زند گی کیا ؟ ایکشن اور تھرل سے بھرپور جیمز بانڈ کی فلم ہے ۔جیمز بانڈ یا بونڈ تو پھر ایکشن کے دوران کہیں کہیں ’’ہیپی آورز‘‘ مناتا، ریلیکس کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں تو مسلسل مار دھاڑ کا سماں ہے ۔ پچھلا بجٹ بھی سنسنی خیز تھا، ضمنی بجٹ بھی ’’باپ‘‘ پر گیا بلکہ باپ سے بھی چار ہاتھ آگے ہے اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اگلا سال گزشتہ سے بھی زیادہ سنسنی خیز ہو گا ۔ سیاست یونہی محو پرواز رہے گی۔ پہلے قومی اسمبلی میں مرد حضرات ’’مارشل آرٹس‘‘ کا مظاہرہ کرتے تھے اب چشم بددور خواتین بھی تھپڑو تھپڑی ہوگئی ہیں تو سر فخر سے بلند تر ہے ۔ شگفتہ نے غزالہ کو یا یوں کہیےکہ جمالی نے سیفی کو تھپڑ جڑ دیا ۔ غزالہ کہتی ہیں ’’ہاتھ بھی مروڑا ‘‘ لگتا ہے انگلی فریکچر ہو گئی ’’بی بی شگفتہ فرماتی ہیں ‘‘ شروعات غزالہ نے کیں، تھپڑ مارتی تو وہ اٹھ نہیں سکتی تھی ‘‘ چلو خیر ہے کسی اگلی قسط میں قرضہ اترتے دیکھ لیں گے ۔کبھی پنجابی فلموں کا عروج تھا۔ کوئی کہتی ’’میری بینی ناں مروڑ‘‘ اور کسی کو یہ شکایت ہوتی کہ ’’ماہی نے میری چیچی کا چھلا اتار لیا ہے‘‘۔ اب یہ سب کچھ سینما ہائوسز سے ’’فلور آف دی ہائوس ‘‘ کی طرف شفٹ ہو گیا ہے تو عوام الناس کو اتنی معیاری اینٹرٹینمینٹ پر اس جمہوریت کا شکریہ ادا کرنا چا ہئے ۔
دوسری طرف نوٹنکی لیگ نے بھی پینترا بدلتے ہوئے پارٹی قائد نواز شریف سے عرض کیا ہے ’’جان کو خطرہ ہے واپس نہ آئیں‘‘
منیر نیازی نے کہا تھا کہ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر بہت آہستہ ۔منیر آج زندہ ہوتے تو شرمندہ ہوتے کہ سفر آہستہ آہستہ نہیں ’’ریورس‘‘ کا ہے ۔ محاورہ ہے ’’ایک قدم آگے دو قدم پیچھے‘‘۔ وقت اس میں یہ ترمیم کر چکا کہ اب صورتحال ’’ایک قدم آگے دس قدم پیچھے‘‘ والی ہے ورنہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ’’ریاست لینڈ مافیا بن چکی ۔ تمام ادارے جرائم میں ملوث۔ سیکرٹری داخلہ بتائیں کہ حاضر سروس افسران کیسے بزنس کرتے ہیں ؟ سٹیٹ لوگوں کو تحفظ دینے کی بجائے جرائم میں ملوث ہے‘‘
لیکن گھبرانا نہیں کیونکہ اگلا سال بھی ایکشن ری پلے سے کم نہ ہو گا کیونکہ شاعر کہتا ہے کہ لمحے خطائیں کریں تو صدیوں کو سزائیں بھگتنی پڑتی ہیں اور ہم نے تو کیسے کیسوں کو تین تین بار وزیر اعظم بنا دیا۔شاعر اور شاعری سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں اسلم گورداسپوری کا چھٹا مجموعہ کلام ہاتھ لگا اور یہ وہی اسلم گورداسپوری ہے جس نے لکھا تھا ۔
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں
اس تازہ شعری مجموعہ کا عنوان ہے ’’ملالِ بے ہنری‘‘ بنانے والوں نے کیا خوب معاشرہ بنایا کہ ہنرمندوں کو تو بے ہنری کا ملال ہے اور بے ہنر اپنی ہنرمندیوں کے جشن منا رہے ہیں اور ان کی اٹکھیلیاں دیکھی نہیں جاتیں لیکن منی بجٹ سمیت سب پر چار حرف بھیجیں اور اسلم گورداسپوری کے چند شعروں پر غور فرمائیں۔
میں اس در سے گزر کر آگیا ہوں
جہاں سارا جہاں ٹھہرا ہوا ہے
اور غور کریں یہ شعر کن کے بارے میں ہے
تم حشر کے دن بھی یہی تکرار کروگے
یہ شخص فلاں ہے، یہ فلاں ہے، یہ فلاں ہے
اور یہ نوحہ دیکھئے ۔
نہ غیب سے نامہ آتا ہے نہ کوئی بشارت ہوتی ہے
ان خودکش حملوں کے پیچھے جنت کی تجارت ہوتی ہے
اور اگر آپ چاہئیں تو اس شعر کے ذریعہ پاکستانی اقتصادیات کے اصل المیہ کو بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔
معیشت لوٹنے کو راہزنوں کے غول آتے ہیں
ہماری زندگی کی فصل ٹڈی دل ہی کھاتے ہیں
اور پھر اس کا تو جواب ہی نہیں
کیا خیال عزت کا، پاس کیا انائوں کا
کیا وقار ہوتا ہے مستقل گدائوں کا
قوم کی معیشت ہو، ساکھ ہو سفینہ ہو
کام ہی ڈبونا ہے میرے ناخدائوں کا
گرانی مہنگائی کا ماتم تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن اس ’’گرانی‘‘ کا ذکر بھی کم کم ہی سننے میں آتا ہے جو ہمارے اجتماعی چہرے کا ’’کلوز اپ ‘‘ ہے شعر کیا ہے، شجرہ نسب ہے ۔
مستقل جہالت ہی ہم پہ راج کرتی ہے
ہم میں علم و حکمت کی کس قدر گرانی ہے
اور یہ دو شعر قائدین خصوصاً قائد اعظم ثانی کے نام (میری طرف سے)
آسانیاں تو آپ نے ساری خرید لیں
اس قوم کی کبھی کوئی مشکل خرید لو
مانا کہ آپ میں ہے بہت قوتِ خرید
اپنی مصیبتوں کا کوئی حل خرید لو
’’لوٹ آئو میرے پردیسی بہار آئی ہے ‘‘ اور اپنے ساتھ منی بجٹ بھی لائی ہ
رستے پہ عمر کی مرا پائوں پھسل گیا
اک اور سال پھر مرے ہاتھوں نکل گیا
اپنی سالگرہ اور ہر نئے سال پر مجھے اپنا ہی یہ شعر یاد آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ سال کیا، یہاں تو جانے کیا کیا کچھ ہاتھوں سے نکل اور پھسل گیا۔ میں کیا، ہر پاکستانی کی زندگی سنسنی سے بھرپور ہے۔ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہےکہ گیا سال زیادہ سنسنی خیز تھا، حال زیادہ سنسنی خیز ہے کہ آئندہ سال زیادہ سنسنی خیز ہو گا۔ زند گی کیا ؟ ایکشن اور تھرل سے بھرپور جیمز بانڈ کی فلم ہے ۔جیمز بانڈ یا بونڈ تو پھر ایکشن کے دوران کہیں کہیں ’’ہیپی آورز‘‘ مناتا، ریلیکس کرتا دکھائی دیتا ہے لیکن یہاں تو مسلسل مار دھاڑ کا سماں ہے ۔ پچھلا بجٹ بھی سنسنی خیز تھا، ضمنی بجٹ بھی ’’باپ‘‘ پر گیا بلکہ باپ سے بھی چار ہاتھ آگے ہے اور آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ اگلا سال گزشتہ سے بھی زیادہ سنسنی خیز ہو گا ۔ سیاست یونہی محو پرواز رہے گی۔ پہلے قومی اسمبلی میں مرد حضرات ’’مارشل آرٹس‘‘ کا مظاہرہ کرتے تھے اب چشم بددور خواتین بھی تھپڑو تھپڑی ہوگئی ہیں تو سر فخر سے بلند تر ہے ۔ شگفتہ نے غزالہ کو یا یوں کہیےکہ جمالی نے سیفی کو تھپڑ جڑ دیا ۔ غزالہ کہتی ہیں ’’ہاتھ بھی مروڑا ‘‘ لگتا ہے انگلی فریکچر ہو گئی ’’بی بی شگفتہ فرماتی ہیں ‘‘ شروعات غزالہ نے کیں، تھپڑ مارتی تو وہ اٹھ نہیں سکتی تھی ‘‘ چلو خیر ہے کسی اگلی قسط میں قرضہ اترتے دیکھ لیں گے ۔کبھی پنجابی فلموں کا عروج تھا۔ کوئی کہتی ’’میری بینی ناں مروڑ‘‘ اور کسی کو یہ شکایت ہوتی کہ ’’ماہی نے میری چیچی کا چھلا اتار لیا ہے‘‘۔ اب یہ سب کچھ سینما ہائوسز سے ’’فلور آف دی ہائوس ‘‘ کی طرف شفٹ ہو گیا ہے تو عوام الناس کو اتنی معیاری اینٹرٹینمینٹ پر اس جمہوریت کا شکریہ ادا کرنا چا ہئے ۔
دوسری طرف نوٹنکی لیگ نے بھی پینترا بدلتے ہوئے پارٹی قائد نواز شریف سے عرض کیا ہے ’’جان کو خطرہ ہے واپس نہ آئیں‘‘
منیر نیازی نے کہا تھا کہ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر بہت آہستہ ۔منیر آج زندہ ہوتے تو شرمندہ ہوتے کہ سفر آہستہ آہستہ نہیں ’’ریورس‘‘ کا ہے ۔ محاورہ ہے ’’ایک قدم آگے دو قدم پیچھے‘‘۔ وقت اس میں یہ ترمیم کر چکا کہ اب صورتحال ’’ایک قدم آگے دس قدم پیچھے‘‘ والی ہے ورنہ چیف جسٹس اطہر من اللہ کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ’’ریاست لینڈ مافیا بن چکی ۔ تمام ادارے جرائم میں ملوث۔ سیکرٹری داخلہ بتائیں کہ حاضر سروس افسران کیسے بزنس کرتے ہیں ؟ سٹیٹ لوگوں کو تحفظ دینے کی بجائے جرائم میں ملوث ہے‘‘
لیکن گھبرانا نہیں کیونکہ اگلا سال بھی ایکشن ری پلے سے کم نہ ہو گا کیونکہ شاعر کہتا ہے کہ لمحے خطائیں کریں تو صدیوں کو سزائیں بھگتنی پڑتی ہیں اور ہم نے تو کیسے کیسوں کو تین تین بار وزیر اعظم بنا دیا۔شاعر اور شاعری سے یاد آیا کہ پچھلے دنوں اسلم گورداسپوری کا چھٹا مجموعہ کلام ہاتھ لگا اور یہ وہی اسلم گورداسپوری ہے جس نے لکھا تھا ۔
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارہ کر لیں
اس تازہ شعری مجموعہ کا عنوان ہے ’’ملالِ بے ہنری‘‘ بنانے والوں نے کیا خوب معاشرہ بنایا کہ ہنرمندوں کو تو بے ہنری کا ملال ہے اور بے ہنر اپنی ہنرمندیوں کے جشن منا رہے ہیں اور ان کی اٹکھیلیاں دیکھی نہیں جاتیں لیکن منی بجٹ سمیت سب پر چار حرف بھیجیں اور اسلم گورداسپوری کے چند شعروں پر غور فرمائیں۔
میں اس در سے گزر کر آگیا ہوں
جہاں سارا جہاں ٹھہرا ہوا ہے
اور غور کریں یہ شعر کن کے بارے میں ہے
تم حشر کے دن بھی یہی تکرار کروگے
یہ شخص فلاں ہے، یہ فلاں ہے، یہ فلاں ہے
اور یہ نوحہ دیکھئے ۔
نہ غیب سے نامہ آتا ہے نہ کوئی بشارت ہوتی ہے
ان خودکش حملوں کے پیچھے جنت کی تجارت ہوتی ہے
اور اگر آپ چاہئیں تو اس شعر کے ذریعہ پاکستانی اقتصادیات کے اصل المیہ کو بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں ۔
معیشت لوٹنے کو راہزنوں کے غول آتے ہیں
ہماری زندگی کی فصل ٹڈی دل ہی کھاتے ہیں
اور پھر اس کا تو جواب ہی نہیں
کیا خیال عزت کا، پاس کیا انائوں کا
کیا وقار ہوتا ہے مستقل گدائوں کا
قوم کی معیشت ہو، ساکھ ہو سفینہ ہو
کام ہی ڈبونا ہے میرے ناخدائوں کا
گرانی مہنگائی کا ماتم تو ہر کوئی کرتا ہے لیکن اس ’’گرانی‘‘ کا ذکر بھی کم کم ہی سننے میں آتا ہے جو ہمارے اجتماعی چہرے کا ’’کلوز اپ ‘‘ ہے شعر کیا ہے، شجرہ نسب ہے ۔
مستقل جہالت ہی ہم پہ راج کرتی ہے
ہم میں علم و حکمت کی کس قدر گرانی ہے
اور یہ دو شعر قائدین خصوصاً قائد اعظم ثانی کے نام (میری طرف سے)
آسانیاں تو آپ نے ساری خرید لیں
اس قوم کی کبھی کوئی مشکل خرید لو
مانا کہ آپ میں ہے بہت قوتِ خرید
اپنی مصیبتوں کا کوئی حل خرید لو
ے۔