jung edi 31

منی بجٹ

اداریہ

دسمبر 31۔۔۔2021

روزنامہ جنگ 

قومی اسمبلی کے 30؍دسمبر 2021کے ایجنڈے میں شامل اہم آئٹم وہ سرگرمی ہے جسے مشیر خزانہ شوکت ترین ’’منی بجٹ‘‘ کا نام دے چکے ہیں۔ منی بجٹ کا معاملہ قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں آنے کے بعد مخصوص سرگرمیوں میں تیزی آنا فطری بات ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے اپنے اپنے حامیوں سے رابطوں، اعلانات اور دعووں کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے جبکہ بدھ کے روز متحدہ اپوزیشن نے منی بجٹ اور اسٹیٹ بینک کو خود مختاری دینے کے مجوزہ اقدامات پر شدید احتجاج اور ایوان سے واک آئوٹ کیا۔ دوسری طرف حکومت پرامید ہے کہ وہ اپنے حلیفوں کی مدد سے ایوان میں پیش ہونے والا بل منظور کرالے گی۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ماضی کی طرح ایوان میں ہنگامہ آرائی تو ہوگی مگر عددی اکثریت کے بنا پر حکومت اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بعض حلقوں کی طرف سے ماضی میں آخری لمحوں کے بعض ڈرامائی واقعات کے حوالے بھی دیے جارہے ہیں جو پیش نظر رکھے جائیں تو پیش گوئی آسان نہیں معلوم ہوتی۔ جمعرات کے روز قومی اسمبلی میں کیا کچھ ہوا، اس کی تفصیلات جمعہ کے اخبارات میں ان سطور کی اشاعت کے ساتھ ہی سامنے آئیں گی لیکن یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ رقم پر مشتمل قرضے کی قسط حاصل کرنے کے لیے حکومت مالیاتی ادارے کی شرائط پر مبنی بجٹ تجاویز پارلیمینٹ سے منظور کرانے کی پابند ہے اور اپوزیشن سے کسی نہ کسی انداز میں رابطے کا امکان یکسر نظرانداز کیا جانا ممکن نہیں معلوم ہوتا۔ متعدد امور پر حکومت اور اپوزیشن کی سوچ کا فرق اپنی جگہ، مگر قومی مفاد کے ایسے مرحلے پر، جب معیشت سنگین خطرات سے دوچار ہے اور آئی ایم ایف بورڈ کا مثبت فیصلہ کئی دوسرے اداروں و ملکوں سے تعاون حاصل کرنے کی کلیئرنس چٹ کا درجہ رکھتا ہے، ایسا رابطہ ملکی مفاد کی ضرورت بن جاتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق متحدہ اپوزیشن کے مشاورتی اجلاس میں قرار دیا گیا کہ منی بجٹ ملک کے لیے تباہی کا نسخہ ہے۔ بدھ کے کابینہ اجلاس کے دوران عمران خان کا یہ تبصرہ بھی سامنے آیا کہ سابق حکمرانوں نے عالمی اداروں سے قرض لے کر قوم کو غلام بنادیا۔منی بجٹ کے اعداد پر صراحت کے ساتھ کچھ کہنا سردست ممکن نہیں تاہم بعض اطلاعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے 550ارب روپے سے زائد کا منی بجٹ پیش کرنے کی تیاری کی ہے۔ جمعرات کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا اجلاس طلب کیا گیا جس کا مقصد ٹیکس قوانین ترمیمی بل کی منظوری دینا بتایا جاتا ہے۔ وفاقی کابینہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021کی منظوری پہلے ہی دے چکی ہے۔ مذکورہ بلز کی پارلیمان سے منظوری سے بین الاقوامی ایجنسی کی پانچوں شرائط پوری ہوجائیں گی اور مطلوب فنڈز کی اجرائی کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ IMFکی ایک خاص شرط یہ ہے کہ سیلز ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ ختم کردی جائے۔ کچن آئٹمز، ادویہ، صنعتی و زرعی سامان، ہوٹلنگ، موبائل فون اور کاروں سمیت تقریباً 144اشیا پر 17فیصد سیلز ٹیکس وصول کرکے 360ارب روپے حاصل کئے جاسکیں گے جس کے باعث مہنگائی کا سیلاب آنے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ پیداواری سرگرمیوں، صنعتوں و برآمدات کے فروغ، اور روزگار کے مواقع بڑھانے والی اشیا کی درآمد پر ٹیکس میں چھوٹ عوام کی سہولت اور ملکی ترقی کی ضرورت ہے۔ اسے جاری رکھنے کے لیے اگر سامان تعیش پر غیرمعمولی ٹیکس عائد کرکے رقم حاصل کی جائے تو آئی ایم ایف کی شرط بھی پوری ہوگی اور قومی مفاد کو بھی تقویت ملے گی۔ بظاہر IMFمعیشت کی رفتار سست کرنے کو مسائل کا حل سمجھتا ہے۔ اس معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا جانا چاہئے تاکہ امیروں سے ٹیکس وصول کرکے غریبوں پر خرچ کرنے کی قابلِ عمل صورت نکالی جا سکے۔

This entry was posted in Uncategorized. Bookmark the permalink.