ظالمو! قاضی آ رہا ہے
ظہور ڈھیجہ
دسمبر 30۔۔۔2021
روزنامہ 92نیوز
زیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ نوازشریف وطن واپس آنا چاہیں تو انہیں اپنی جیب سے ٹکٹ دوں گا جبکہ وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی شہباز گل کا کہنا ہے کہ نواز شریف برطانیہ سے بے دخل ہو کر جونہی پاکستان پہنچیں گے تو سیدھا جیل جائیں گے۔ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈیل کے منجن بیچنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ (ن) لیگ کی اسٹبشلمنٹ سے کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ اس سے قبل وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ ہمارے اسٹبشلمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں۔ ہمارے سر سے ابھی ہاتھ نہیں اُٹھا۔ نوازشریف کی وطن واپس آنے کی باتوں سے سیاست میں جو طوفان برپا ہے اس سے مجھے یاد آیا کہ جناب قاضی حسین احمد مرحوم جماعت اسلامی کے سربراہ تھے اور انہوں نے پہلی مرتبہ عوامی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ ان کا سلوگن تھا ’’ظالمو! قاضی آرہا ہے‘‘ پھر ہم نے دیکھا پاکستان کے دَرو دیوار پر یہ نعرہ نظر آیا۔ حتیٰ کہ ٹرینوں اور بہت سی دیگر مقامات جن کا ذکر یہاں ضروری نہیں ہے پر لکھا ہوا یہ نعرہ لکھا نظر آیا۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نے قوم کو نعرہ دیا کہ گھبرانا نہیں ہے مگر عمران خان کی اپنی قیادت نوازشریف کی واپسی سے گھبرائی ہوئی نظر آتی ہے حالانکہ ڈیل کی باتیں بذات خود ووٹ کو عزت دو کے نعرے کی نفی ہے۔ اگر ڈیل ہوئی ہے اور نوازشریف واپس آ رہے ہیں تو تحریک انصاف کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نوازشریف واپس نہیں آئیں گے۔ عمران خان کو پریشان کرنے کیلئے اس طرح کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ آئین کے ماہرین کہتے ہیں کہ نواز شریف کی سزا ختم نہیں ہو سکتی۔ ہاں البتہ ایک صورت ہے کہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میں ایک ایسی نئی شق شامل کی جائے جو نوازشریف کو ریلیف دے سکے، تب سزا ختم ہو گی پھر وہ الیکشن لڑنے اور وزیر اعظم بننے کے حق دار ٹھہر سکیں گے۔ عمران خان کو پریشان کرنے کیلئے نوازشریف کی واپسی کے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف واپس نہیں آرہے، نہ ہی وہ اتنے دلیر اور بہادر ہیں کہ جیل کی زندگی گزار سکیں۔ نوازشریف مختصر مدت کیلئے علاج کی غرض سے باہر گئے تھے مگر علاج والا معاملہ نہیں تھا۔ وہ ہسپتال نہیں بلکہ اپنے محلات میں رہ رہے ہیں۔ سیر سپاٹے کر رہے ہیں اور وہاں بیٹھ کر سیاست بھی کر رہے ہیں۔ گو کہ نوازشریف کے ویزے کی معیاد بھی ختم ہو چکی ہے اور ان کے پاس پاسپورٹ بھی نہیں اس کے باوجود لاہور اور اسلام آباد کے ڈومیسائل کا اتنا فرق ہے کہ ایک ملزم جیل کی سلاخوں سے تختہ دار پر چلا جاتا ہے جبکہ دوسرے ملزم کو کبھی سعودی عرب کے شاہی محلات میں بھیج دیا جاتا ہے اور کبھی برطانیہ کے عشرت کدوں میں۔ گزشتہ روز شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو کی 14ویں برسی پورے ملک میں منائی گئی۔ گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں بہت بڑا اجتماع ہوا ۔ دلیری کے حوالے سے بہت سی باتوں کا تذکرہ ہوا۔ مجھے تاریخی حوالے سے ایک خط یاد آرہا ہے جو کہ میں اپنے قارئین کیساتھ شیئر کرتا ہوں۔ذوالفقار علی بھٹو ڈسٹرکٹ جیل راولپنڈی 21 جون 1978ء کو اپنی عظیم بیٹی کی سالگرہ کے موقع پر خط لکھا جس میں انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو میری سب سے پیاری بیٹی کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’’ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر تہنیت کا خط لکھ سکتا ہے جبکہ اس کی بیٹی ( جو خود بھی مقید ہے اور جانتی ہے کہ اس کی والدہ بھی اس طرح کی تکلیف میں مبتلا ہے ) اس کی جان بچانے کیلئے جدوجہد میں مصروف ہے ، یہ رابطہ سے زیادہ بڑا معاملہ ہے محبت و ہمدردی کا پیغام کس طرح ایک جیل سے دوسری جیل اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے؟ تمہارے دادا نے مجھے فخر کی سیاست سکھائی، تمہاری دادی نے مجھے غربت کی سیاست کا سبق دیا ، ان دونوں باتوں کو مضبوطی سے تھامے رکھو تاکہ ان دونوں کا انضمام ہو سکے۔ پیاری بیٹی !میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں۔ یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے ، صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کیلئے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہے کہ صرف عوام پر یقین کرو۔ ان کی نجات و مساوات کیلئے کام کرو۔ اللہ تعالیٰ کی جنت تمہاری والدہ کے قدموں تلے ہے ، سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے ۔ برصغیر کے عوام زندگی میں کچھ کامیابیاں انعام و کرام کی مستحق ہیں ، جن کے ذریعہ مصیبت زدہ عوام تھکے ہوئے چہروں پر مسکراہٹیں بکھر گئی ہیں جن کے باعث کسی دیہاتی کی غمناک آنکھ میں خوشی کی چمک پیدا ہوگئی ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں کہ بڑے آدمیوں کے نزدیک تو یہ چھوٹی باتی ہیں لیکن میرے جیسے چھوٹے آدمی کیلئے یہ حقیقتاً بڑی باتیں ہیں ، تم بڑی نہیں ہو سکتی ہو جب تک کہ تم زمین کو چومنے کے لئے تیار نہ ہو ، یعنی عاجزی کا رویہ اختیار نہ کرو ۔ تم زمین کا دفاع نہیں کر سکتی جب تک کہ تم زمین کی خوشبو سے واقف نہ ہو ، میں اپنی زمین کی خوشبو سے واقف ہوں ۔ ذوالفقار علی بھٹو مزید لکھتے ہیں پیاری بیٹی! میں اس جیل کی کوٹھڑی سے میں تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں ، جس سے میں اپنا ہاتھ بھی نہیں نکال سکتا لیکن میں آپ کو عوام کا ہاتھ تحفہ میں دیتا ہوں ۔ میں تمہارے لئے کیا تقریب منعقد کر سکتا ہوں، میں تمہیں ایک مشہور نام اور مشہور یادداشت کی تقریب کا تحفہ دیتا ہوں، تم سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو۔ اس قدیم تہذیب انتہائی ترقی یافتہ اور طاقت ور بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کرو۔