جب طاقتور چور بن جائے
روف حسن
فروری ۱۹۔۔۔۲۰۲۲
بشکریہ روزنامہ جنگ
آج سے 21 برس قبل وقت کی واحد سپرپاور امریکہ نے طاقت کے نشے میں آ کر پہلے بمباری کرکے افغانستان کو برباد کیا اور پھر دھوکہ دہی اور بدعنوانی کے ذریعے ایسی تباہی مچائی جس کی شاید ہی دنیا میں کوئی مثال موجود ہو۔ جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کا بنیادی مقصد علاقے کو دہشت گردی اور اس سے وابستہ افراد سے پاک کرنا تھا۔ 21 سال بعد جب امریکہ رُخصت ہوا تو افغانستان کا بیشتر حصہ تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ اس طویل دور کے دوران افغانستان میں جمہوریت، انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے نام پر ایک گھنائونا کھیل کھیلا گیا جس کے تحت بدعنوانی کی مختلف شکلیں متعارف کرائی گئیں جن کا ’’ افغانستان پیپرز‘‘ میں تفصیل کے ساتھ ذکر موجود ہے جسے گریگ وٹلاگ نے باقاعدہ طورپر کتابی شکل دی ہے۔ اس کے ہر صفحہ پر قابض قوتوں کے لیے شرمندگی درج ہے کہ کس طرح امریکہ ڈھٹائی کے ساتھ افغانستان میں قیام کے دوران سچائی کی نفی کرتا رہا اور افغان عوام کی صدیوں پرانی روایات کو ختم کرنے میں مصروفِ عمل رہا۔
انخلا کے بعد امریکہ نے افغان عوام کے لیے مشکلات کھڑی کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور افغانستان کو اپنے اثاثوں تک رسائی سے روکنے کے ساتھ ساتھ مالیاتی اداروں کی جانب سے ملک میں کام کرنے پر پابندیاں لگا کر معاشی تباہی پھیلانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں افغان عوام کو بڑے انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ اب امریکہ نے افغانستان پر ایک اور مہلک بم گرادیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ طالبان حکومت کے 7 ارب ڈالر کے اثاثوں میں سے آدھی رقم افغان عوام کو دی جائے گی اور باقی آدھی رقم 9/11 کے متاثرین میں تقسیم کی جائے گی۔ امریکی انتظامیہ کا یہ طرزِ عمل لوٹ مار کے مترادف ہے۔ یہ عمل ایسا ہی ہے جیسے دنیا کی طاقتور ترین قوت ان ٹکڑوں اور لقموں کو بھی ہڑپ کرنا چاہے جو 21 برس تک ظلم وستم کا نشانہ بننے کے بعد افغانستان میں رہ گئے ہیں۔ مہذب قوموں کی تاریخ میں گراوٹ کی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ امریکہ کا یہ طرزِ عمل ایک بھیانک تاریخ کا حصہ لگتا ہے جو اس نے جارحیت کا شکار افغان عوام کو مزید مشکلات میں ڈالنے کے لیے کیا ہے۔یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ افغانستان کے لیے اعلان کردہ ساڑھے 3 ارب ڈالر کی تقسیم کے عمل کی سختی سے نگرانی کی جائے گی اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ یہ رقم طالبان تک نہ پہنچے۔ یعنی افغان عوام کیلئے کیا اچھا ہے اور کیا برا ہے؟ اس کا فیصلہ بھی امریکہ ہی کرے گا۔ امریکہ کے اس فیصلے کو بڑے پیمانے پر تنقید کا سامنا ہے۔ افغان حکومت نے ان اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے افغان عوام کے حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ افغان حکومت کا کہنا ہے کہ 9/11 کے حملوں میں افغان عوام کادور دور تک واسطہ نہ تھا۔ اس واقعہ کو جواز بنا کر افغان عوام کے اثاثوں پر قبضہ سراسر جارحیت اور ظلم تصور کیا جائے گا اور یہ عمل اماراتِ اسلامیہ افغانستان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی ہوگی۔ قطر میں طالبان کے دفتر کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان کے اثاثوں پر قبضہ چوری اور اخلاقی گراوٹ کے مترادف ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی جانب سے افغان مرکزی بینک کے اثاثوں کو منجمد کرنے پر اپنے اصولی موقف کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ اثاثے افغان عوام کا حق ہیں جو انہیں فوری طورپر ملنے چاہئیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ان فنڈز کا استعمال افغانستان کا ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے۔ ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان اثاثوں کو فوری طورپر بحال کرکے افغان عوام کی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے ایڈووکیسی ایڈوائزر جان اسفٹن نے لکھا ہے کہ یہ فیصلہ افغانستان میں جنم لینے والے انسانی بحران کو مزید گھمبیر کرے گا۔
امریکی حکومت انتقام میں اتنا آگے بڑھ چکی ہے کہ وہ عقل سے بھی محروم دکھائی دیتی ہے۔ وہ اگر ساڑھے 3 ارب ڈالر یا7ارب ڈالر روک بھی لےیا وہ طالبان حکومت پر مزید پابندیاں لگا دے یا وہ بینکنگ سمیت بنیادی ضروریات کے دیگر ذرائع پربھی پابندی لگا دے تاہم اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ فی الوقت طالبان کا کوئی متبادل نہیں۔ امریکی انتظامیہ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کٹھن حالات میں ان کے انخلا کے باوجود طالبان اسی معاہدے کی وجہ سے وہاں موجود ہیں جس پر انہوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ امریکیوں کو اس امر کو بھی ملحوظ ِخاطر رکھنا ہوگا کہ ماضی قریب میں کبھی افغانستان اتنا متحد اور پرامن نہیں تھا جتنا طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہے۔ طالبان کی جانب سے کابل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد کہیں بغاوت نظر نہیں آئی، دہشت گردی سے متعلق سرگرمیاں بھی کم پڑ گئی ہیں۔ جبکہ لوگوں نے کھلے دل کے ساتھ حکومت کو تسلیم بھی کیا ہے۔ طالبان ایک منظم حکومت کے قیام، انسانی حقوق اور خواتین کو تعلیم اور کام کے مواقع فراہم کرنے کے لیے بھی پرعزم ہیں تاہم وہ ان اقدامات پر عملدرآمد کے لیے مزید وقت چاہتے ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ طالبان کو اس طریقہ سے نشانہ بنایا جائے جو پورے افغان عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔ طالبان کی آڑ میں افغان عوام سے انتقام نہیں لیا جانا چاہیے۔
اس فیصلے سے امریکہ کی ساکھ کو مزید دھچکا لگا ہے۔ امریکہ تیزی کے ساتھ پستی کی طرف آیا ہے اور شاید وہ خود کو مزید ڈبونا چاہتا ہے۔ ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ امریکہ طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ہے۔ طاقتور قوتوں کی جانب سے قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کے بجائے ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا یہ عجب کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یقیناً یہ صورتحال مزید زوال کا باعث ہوگی۔